Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ : عَرْضِ الطَّعَامِ
باب: کھانا پیش کیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3298
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ ، قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ , فَعَرَضَ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: لَا نَشْتَهِيهِ، فَقَالَ:" لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا".
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کھانے کو کہا، ہم نے عرض کیا: ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ بھوک اور غلط بیانی کو اکٹھا نہ کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏(سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: آداب الزفاف: 92، المشکاة: 3256)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ کوئی کھانے کو کہے تو بھوک رکھ کر یوں کہتے ہیں: مجھے خواہش نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، اگر بھوک ہے تو کھانا کھا لینا چاہیے ورنہ غلط بیانی میں بھوکا رہے، اور عذاب میں مبتلا ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3298 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3298  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانا کھاتے وقت موجود افراد کو کھانے کی پیش کش کرنا اچھی عادت ہے۔

(2)
کھانے کی پیش کش کی جائے تو بھوک ہونے پر قبول کرنے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
بھوک نہ ہو توایسی پیش کش قبول نہ کرنے میں حرج نہیں۔
شکریہ ادا کرنا چاہیے تاہم بہتر ہے کہ ایک دولقمے لے لیے جائیں۔

(4)
جھوٹ تکلف کے موقع پر بھی اچھا نہیں۔
معذرت کے لیے کوئی اور مناسب انداز اختیار کر لیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3298