Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
48. بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ:
باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 202
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ"، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ سَأَلَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، إِذَا حَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ عَنِ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ، وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: أَخْبَرَنِي أَبُو النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنّ سَعْدًا حَدَّثَهُ، فَقَالَ: عُمَرُ لِعَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ.
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا (سچ ہے اور یاد رکھو) جب تم سے سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا (کسی) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے) عبداللہ سے ایسا کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 202 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 202  
تشریح:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ آئے، اور انہیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انہوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا: اور حضرت سعد کا حوالہ دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔

موزوں پر مسح کرنا تقریباً ستر صحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہو چکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آ رہی ہے۔ وہ غزوہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 202   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:202  
حدیث حاشیہ:

روایت بخاری میں اختصار ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تفصیل بایں الفاظ لکھی ہے کہ حضرت سعد ؓ کوفے کے گورنرتھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب کوفہ گئے اور انھوں نے حضرت سعد کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو انھیں یہ بات کھٹکی۔
انھوں نے اعتراض کیا۔
حضرت سعد ؓ نے فرمایا:
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ کو اس پر اطمینان نہ ہوا تو حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ مزید تسلی کے لیے اپنے والد گرامی حضرت عمر ؓ سے پوچھ لینا۔
پھر کسی مجلس میں یہ تینوں حضرات جمع ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو یاد دلایا کہ وہ مسئلہ دریافت کر لو، چنانچہ یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد بالکل درست کہتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد جب تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو اس پر اعتماد رکھو، دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرو۔
(فتح الباري: 400/1)
حضرت عمر ؓ نے فرمایا:
ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور موزوں پر مسح کرتے تھے، ایساکرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔
ابن عمر ؓ نے کہا:
اگرچہ انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تب بھی مسح کر لے؟ فرمایا:
ہاں۔
(صحیح ابن خزیمة: 93/1)

حضرت ابن عمر ؓ قدیم الاسلام ہیں، اس کے باجود انھیں مسح علی الخفین کے متعلق اشکال تھا۔
محدثین نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں:
(الف)
۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو دوران سفر میں مسح کرتے دیکھا تھا جیسا کہ کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے۔
(مصنف ابن أبي شیبة: 206/1)
اس لیے ممکن ہے کہ ابن عمر ؓ موزوں پر مسح کرنے کو سفر کے ساتھ خاص سمجھتے ہوں۔
اس بنا پر جب انھوں نے حضرواقامت میں حضرت سعد ؓ کو مسح کرتے دیکھا تو اعتراض کردیا۔
(ب)
۔
ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ چند ایک دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ سورہ مائدہ کی آیت وضو کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہو گیا ہو جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت جریر ؓ کے عمل مسح پر اشکال پیش آیا تھا توانھوں نے جواب دیا کہ میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں۔
حضرت ابن عمر ؓ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، چنانچہ شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے مسح کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
تم موزوں پر مسح کرو۔
(مصنف ابن أبي شیبة: 207/1)

حدیث کے آخر میں امام بخاری ؓ نے متابعت کے انداز میں ایک تطبیق بھی ذکر کی ہے جسے اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں با سند بیان کیا ہے۔
اس تعلیق میں یکے بعد دیگرے تین تابعی ہیں: 1۔
موسیٰ بن عقبہ۔

ابوالنضر۔

ابوسلمہ بن عبدالرحمان۔
واضح رہے کہ یہ تعلیق روایت بالمعنی کے طور پر ہے جیسا کہ امام بخاری ؓ نے نحوہ کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 400/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 202   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث546  
´موزوں پر مسح کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (سعد بن مالک ابن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں؟ وہ دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے؟ فرمایا: ہاں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
(1)
ایک عالم شخص بھی بعض اوقات کسی مسئلہ سے ناواقف ہوسکتا ہے اس سے اسکی شان میں کوئی فرق نہیں آتا، اس لیے علماء کرام کہا کرتے ہیں:
(مَنْ حَفِظَ حُجَّةٌ عَلٰي مَنْ لَّمْ يَحْفَظْ)
جسے ایک مسئلہ یا حدیث یاد ہےوہ حجت ہے اس شخص پرجسے یاد نہیں۔

(2)
اختلاف کے موقع پر اپنے سے بڑے عالم سے مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے۔

(3)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ دلیل کے ساتھ بیان کردے تاکہ سائل کو اطمینان ہوجائے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دلیل دی کہ یہ عمل ہم نے نبی ﷺ کی موجودگی میں آپ کے سامنے کیا ہےاور آپ نے منع نہیں فرمایا لہٰذا یہ جائز اور درست ہے۔ (4)
رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کوئی کام کیا جائے اور آپ منع نہ کریں تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے۔
ایسی حدیث کو تقریری حدیث کہتے ہیں۔
نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کی خاموشی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شخص اس کےجواز یا کراہت کا قائل ہو یا خاموشی کی وجہ کوئی اور ہو-
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 546