Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
47. بَابُ إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا فَوَهَبَ مِنْ سَاعَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا وَلَمْ يُنْكِرِ الْبَائِعُ عَلَى الْمُشْتَرِي، أَوِ اشْتَرَى عَبْدًا فَأَعْتَقَهُ:
باب: اگر ایک شخص نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی کسی اور کو للہ دے دی پھر بیچنے والے نے خریدنے والے کو اس پر نہیں ٹوکا، یا کوئی غلام خرید کر (بیچنے والے سے جدائی سے پہلے ہی اسے) آزاد کر دیا۔
حدیث نمبر: 2115
وَقَالَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَكُنْتُ عَلَى بَكْرٍ صَعْبٍ لِعُمَرَ، فَكَانَ يَغْلِبُنِي، فَيَتَقَدَّمُ أَمَامَ الْقَوْمِ فَيَزْجُرُهُ عُمَرُ، وَيَرُدُّهُ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ فَيَزْجُرُهُ عُمَرُ، وَيَرُدُّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِعُمَرَ: بِعْنِيهِ، قَالَ: هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، فَبَاعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَاعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، تَصْنَعُ بِهِ مَا شِئْتَ".‏
حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ایک نئے اور سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ اکثر وہ مجھے مغلوب کر کے سب سے آگے نکل جاتا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹ کر پیچھے واپس کر دیتے۔ وہ پھر آگے بڑھ جاتا۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ ڈال۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو آپ ہی کا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے یہ اونٹ دیدے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اونٹ بیچ ڈالا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ بن عمر! اب یہ اونٹ تیرا ہو گیا جس طرح تو چاہے اسے استعمال کر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2115 کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2115  
فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے باب میں بھی ذکر کیا ہے تو شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں:
«وقال ابن بطال: مناسبة حديث ابن عمر للترجمة انه صلى الله عليه وسلم لو سأل عمر أن يهب البعير لابنه عبد الله لبادر إلى ذلك، لكنه لو فعل لم يكن عدلا بين بني عمر، فلذلك اشتراه صلى الله عليه وسلم منه، ثم وهبه لعبد الله، قال المهلب: وفي ذلك دلالة على أنه لا تلزم المعدلة فيما يهبه غير الاب لولد غيره وهو كما قال .»
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت کی ترجمۃ الباب سے یہ مطابقت ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ اپنے بیٹے عبداللہ کو اونٹ ہبہ کریں، تو وہ فوراً تعمیل کرتے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے مابین انصاف نہیں ہونا تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ خرید کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہبہ کر دیا۔ مہلب کہتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر باپ کے علاوہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو ہبہ کرے، تو اس میں مساوات ضروری نہیں ہے۔ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:) ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري: 5/ 215]

خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان نے اپنی زندگی میں اپنے کسی بیٹے یا کچھ بیٹوں کو اپنی جائیداد میں حصہ دیا اور ان کے نام لگوا کر باقیوں کو محروم کر دیا، تو ایسا ہبہ ناجائز ہے، مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ایسے ہبہ کو واپس لوٹانا واجب ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث/صفحہ نمبر: 23   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2115  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں شرط کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا کیونکہ مذکورہ مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی فوراً کسی کو ہبہ کردی، اس پر بائع نے مشتری پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اس کے فعل پر خاموش رہ کر اپنی رضامندی کو ظاہر کیا تو بیع جائز ہے۔
اگر بائع نے انکار کردیا اور اس معاملے پر راضی نہ ہوا تو بیع جائز نہیں ہوگی کیونکہ انعقاد بیع کے لیے جسمانی علیحدگی ضروری تھی،لیکن مذکورہ صورت میں بائع کے خاموش رہنے سے خیار مجلس ختم ہوجاتا ہے۔
اس حدیث میں صرف ہبہ کا ذکر ہے۔
امام بخاری ؒ نے غلام آزاد کرنے کو ہبہ پر قیاس کیا کیونکہ دونوں عطیہ کرنے کی قسم سے ہیں۔
(2)
ابن بطال نے کہا ہے:
جن حضرات کے نزدیک تفرق ابدان کے بغیر بیع پوری نہیں ہوتی اور وہ مشتری کا تصرف قبل ازتفرق جائز خیال نہیں کرتے یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔
(فتح الباري424/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2115   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:691  
691- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایک ایسے اونٹ پر سوار تھا جو سخت تھا وہ مجھ پر غالب آجاتاتھا، اور لوگوں سے آگے نکل جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے جھڑ کتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے وہ پھر آگے ہوجاتا تھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اسے جھڑکتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہ مجھے فروخت کردو انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم)!یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:691]
فائدہ:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ہدیہ جس شخص کو دیا جائے وہی اس کا مستحق ہوگا۔ دوسرا کوئی اس شخص اگر اس مجلس میں ہو وہ اس کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے اگر کسی کو کچھ ہدیہ دیا جائے اس کے پاس اور لوگ بھی بیٹھے ہوں تو اب اس کو دیا جائے جو زیادہ حق دار ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 691   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2611  
2611. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2611]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ ؓ اونٹ پر سوار تھے۔
آنحضرت ﷺ نے اسی حالت میں اسے خرید لیا اور پھر از راہ نوازش عبداللہ ؓ کو اسی حالت میں اسے ہبہ فرمادیا، اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2611   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2611  
2611. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2611]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی دوسرے شخص کو اونٹ ہبہ کرے اور جسے ہبہ کیا گیا ہے وہ خود اس پر سوار ہو تو یہ ہبہ جائز ہے۔
احناف کا دعویٰ ہے کہ جب کوئی چیز قبضے میں نہ ہو اسے فروخت یا ہبہ کرنا جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
قبضے کے بغیر بھی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے متعلق قانونی حق ملکیت حاصل ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اونٹ پر سوار تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے خریدا پھر ازراہ نوازش انہیں ہبہ کر دیا، اس پر عملاً قبضہ نہیں بلکہ اس شخص اور ہبہ کیے ہوئے اونٹ کے درمیان ملکیت سے دستبرداری قبضہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدی ہوئی چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2611