سنن ابن ماجه
كتاب الذبائح
کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل
6. بَابُ : السَّلْخِ
باب: کھال اتارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3179
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الْجُهَنِيُّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ عَطَاءٌ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِغُلَامٍ يَسْلُخُ شَاةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَنَحَّ حَتَّى أُرِيَكَ"، فَأَدْخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ فَدَحَسَ بِهَا، حَتَّى تَوَارَتْ إِلَى الْإِبِطِ، وَقَالَ: يَا غُلَامُ،" هَكَذَا فَاسْلُخْ"، ثُمَّ مَضَى وَصَلَّى لِلنَّاسِ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا جو بکری کی کھال اتار رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الگ ہو جاؤ میں تمہیں بتاتا ہوں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک گوشت اور کھال کے بیچ داخل فرمایا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ بغل تک پہنچ کر چھپ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لڑکے! اس طرح سے کھال اتارو“، پھر آپ وہاں سے چلے، اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 73 (185)، (تحفة الأشراف: 4158) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ بکری نجس نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3179 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3179
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کوئی کام سکھانے کے لیے عملی نمونہ پیش کرنا بہترین طریقہ ہے۔
(2)
اگر کوئی نو آموز کسی کام کو اچھی طرح انجام نہ دے رہا ہو تو بزرگوں کو چاہیے کہ اسے ڈانٹنے جھڑکنے کے بجائے خود وہ کام کرکے دکھائیں اور مناسب رہنمائی کریں۔
(3)
کھال اتارنے یا گوشت اتارنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
(4)
نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اگر چھوٹا موٹا کام کردیا جائے، جس سے نماز میں تاخیر نہ ہو کوئی حرج نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3179
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 185
´انسان کو بہت زیادہ نفیس اور نازک مزاج بھی نہیں بن جانا چائیے`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِغُلَامٍ وَهُوَ يَسْلُخُ شَاةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَنَحَّ حَتَّى أُرِيَكَ . . .»
”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا، وہ ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم ہٹ جاؤ، میں تمہیں (عملی طور پر کھال اتار کر) دکھاتا ہوں . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 185]
فوائد و مسائل:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ”معلم“ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ایک پہلو یہ بھی تھا، جو اوپر مذکور ہوا کہ کام عمدہ اور خوبصورت انداز میں سرانجام دیا جائے۔
➋ چربی کی چکناہٹ اور گوشت کی خاص مہک اور اس کا خون لگنے سے طہارت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
➌ انسان کو بہت زیادہ نفیس اور نازک مزاج بھی نہیں بن جانا چائیے کہ اس قسم کے کاموں سے اہتمام غسل یا کپڑے تبدیل کرنا پڑیں۔ چاہیے کہ معمولات زندگی میں تکلفات کی بجائے سادگی کو اختیار کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 185