سنن ابن ماجه
كتاب الذبائح
کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل
4. بَابُ : التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الذَّبْحِ
باب: ذبح کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3173
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ سورة الأنعام آية 121، قَالَ:" كَانُوا يَقُولُونَ مَا ذُكِرَ عَلَيْهِ اسْمُ اللَّهِ فَلَا تَأْكُلُوا، وَمَا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ"، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ سورة الأنعام آية 121.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ آیت کریمہ: «إن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم» (سورة الأنعام: 121) کی تفسیر میں کہتے ہیں: ان کی وحی یہ تھی کہ جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام لیا جائے اس کو مت کھاؤ، اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے کھاؤ، تو اللہ عزوجل نے فرمایا: «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه» جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 13 (2818)، (تحفة الأشراف: 6111)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الضحایا 40 (4448) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان سے گوشت لے لینا جائز ہے، اگرچہ یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا تھا یا نہیں کیونکہ مسلمان کی ظاہری حالت امید دلاتی ہے کہ اس نے اللہ تعالی کا نام ضرور لیا ہو گا، البتہ مشرک سے گوشت لینا جائز نہیں جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے، اگر دیکھے نہیں لیکن مشرک یہ کہے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے تو اس کا لینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مردار ہے «منخنقہ» وغیرہ ورنہ ہرگز جائز نہ ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2818)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3173 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3173
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ بھی دور جاہلیت کے غلط رواجوں میں سے ایک رواج تھا کہ غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ کھاتے تھے۔
اور اس جانور کا گوشت بھی کھا لیتے تھے جس پر اللہ کا نام جان بوجھ کر نہ لیا گیا ہو۔
اور اسے شرعی مسئلہ سمجھتے تھے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ﴾ (الأنعام: 138/2)
”اور کچھ جانوروں پر اللہ کا نام نہیں لیتے، اللہ کے ذمے جھوٹی بات لگاتے ہوئے۔
(2)
آیت مبارکہ کی شان نزول میں یہ بھی روایت ہے کہ مشرکین کہتے تھے:
مسلمان اپنا مارا ہوا (ذبح شدہ)
جانور تو کھا لیتے ہیں، اللہ کا ماراہوا (مردار)
جانور نہیں کھاتے تھے۔
اللہ تعالی نے اس کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔
اور مسلمانوں کو ان (مشرکین)
کے پیدا کردہ شبہات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾ (الأنعام 121: 6)
”اگر تم ان کی بات مانوگے تو تم لوگ بھی مشرک ہوجاؤگے۔“
(جامع الترمذي، التفسير، (باب)
ومن سورة الأنعام، حديث: 3-29)
(3)
ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
(4)
مسلمان کے بارے میں ظاہری طور پر یقین ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہے، مثلاً:
خود ذبح کرتے دیکھا ہو یا کسی قابل اعتماد مسلمان نے دیکھا ہو، تو اہل کتاب کے اس شخص کا ذبح کیا ہوا بھی درست ہے۔
دوسرے غیر مسلموں (ہندو، بدھ، پارسی وغیرہ)
کا ذبح کیا ہوا جائز نہیں۔
(5)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ بعض دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ دیکھیے: (صحيح سنن أبي داؤد، (مفصل)
للألباني، حديث: 2509)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3173