حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ : أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، أَخْبَرَهُ" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ، أَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا، وَجُلُودَهَا، وَجِلَالَهَا لِلْمَسَاكِينِ".
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1166
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم ارشاد فرمایا کہ میں ” قربانی کے اونٹوں کی نگرانی و حفاظت کروں۔“ یہ حکم دیا کہ میں ” ان کا گوشت اور چمڑا اور جھول کو مساکین و غرباء پر تقسیم کر دوں اور قصاب کو اس سے کچھ بھی نہ دوں۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1166»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحج، باب لا يعطي الجزار من الهدي شيئًا، حديث:1716، 1717، ومسلم، الحج، باب الصدقة بلحوم الهدايا، وجلودها وجلالها...، حديث:1317.»
تشریح:
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔
ان کی تعداد ایک سو تھی۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔
اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1166
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3099
´ہدی کے اونٹوں پر جھول ڈالنے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ہدی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور کہا کہ میں ان کی جھولیں اور ان کی کھالیں (غریبوں اور محتاجوں میں) بانٹ دوں، اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں، آپ نے فرمایا: ”ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3099]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:
(1)
جانوروں کوسردی وغیرہ سے بچانے کے لیے ان پر جھول ڈالنی درست ہے۔
(2)
قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور جھولیں صدقہ کردینی چاہیئں۔
(3)
قربانی کے جانور کا گوشت قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔
(4)
قربانی کا جانور قصاب سے اجرت دے کر ذبح کروانا جائز ہےجبکہ خود اپنے ہاتھ سےذبح کرنا افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3099
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:41
41- عبدالرحمٰن بی ابولیلیٰ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ ہدایت کی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں (یعنی انہیں ذبح کرواؤں) اور پر ڈالے جانے والے کپڑے اور ان کی کھالوں کی تقسیم کردوں اور ان میں کوئی بھی چیز قصائی کو نہ دوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اسے اپنے پاس ے (معاوضے کی) ادائیگی کریں گے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:41]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قربانی کے جانوروں کا جھول نکیل اور رسی بھی تقسیم کر دینی چاہیے بعض لوگ صرف چمڑا تقسیم کرتے ہیں، دیگر مذکورہ چیزیں تقسیم نہیں کرتے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جانوروں کو سردی سے بچانے کے لیے یا اس پر سخت چیز لادنے کے لیے اس پر جھول ڈالنا درست ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کا گوشت، جھول یا کھال اجرت میں قصاب کو دینا جائز نہیں ہے بلکہ اس کی مزدوری اپنی جیب سے دینی چاہیے۔ جس چیز کو صدقہ کرنا ہے، وہ کسی اور کے سپر د بھی کی جاسکتی ہے۔صدقہ و خیرات والی چیز کو تقسیم کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 41
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1716
1716. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1716]
حدیث حاشیہ:
جیسے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ قصائی کی اجرت میں کھال یا اوجھڑی یا سری پائے حوالہ کردیتے ہیں، بلکہ اجرت اپنے پاس سے دینی چاہئے البتہ اگر قصائی کو للّٰہ کوئی چیز قربانی میں سے دیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
(وحیدی)
صحیح مسلم میں حدیث جابر میں ہے کہ اس دن رسول کریم ﷺ نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے پھر باقی پر حضرت علی ؓ کو مامور فرمادیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1716
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1717
1717. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ وہ قربانی کے اونٹوں کی نگہداشت کریں اور ان کا گوشت چمڑا اور جھولیں سب خیرات کردیں، نیز قصاب کو بطور اجرت ان میں سے کوئی چیز نہ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1717]
حدیث حاشیہ:
یہ وہ اونٹ تھے جو آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے لیے لے گئے تھے، دوسری روایت میں ہے کہ یہ سو اونٹ تھے ان میں سے تریسٹھ اونٹوں کو تو آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے نحر کیا، باقی اونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر کر دیا۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ثم أعطی علیا فنحر ما عبرو أشرکه في هدیه ثم أمر من کل بدنة ببضعة فجعلت في قدر فطبخت فأکلا من لحمها و شربا من مرقها۔
یعنی آپ ﷺ نے بقایا اونٹ حضرت علی ؓ کے حوالہ کر دئیے اور انہوں نے ان کو نحر کیا اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی ہدی میں شریک کیا پھر ہر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہانڈی میں اسے پکایا گیا پس آپ دونوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا۔
یہ کل سو اونٹ تھے جن میں سے آنحضرت ﷺ نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے باقی حضرت على ﷺ نے نحر کئے۔
قال البغوي في شرح السنة و أما إذا أعطی أجرته کاملة ثم تصدق علیه إذا کان فقیراً کما تصدق علی الفقراء فلا بأس بذلك (فتح)
یعنی امام بغوی نے شرح السنہ میں کہا کہ قصائی کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر وہ فقیر ہے تو بطور صدقہ قربانی کا گوشت دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
و قد اتفقوا علی أن لحمها لا یباع فکذلك الجلود و الجلال و أجازہ الأوزاعي و أحمد و إسحاق و أبوثور (فتح)
یعنی اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا گوشت بیچا نہیں جاسکتا اس کے چمڑے اور جھول کا بھی یہی حکم ہے مگر ان چیزوں کو امام اوزاعی اور احمد و اسحق اور ابوثور نے جائز کہا ہے کہ چمڑا اور جھول بیچ کر قربانی کے مستحقین میں خرچ کردیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1717
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1718
1718. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت صدقہ کردوں تو میں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے انھیں بھی بانٹ دیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی کھالیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے وہ بھی تقسیم کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1718]
حدیث حاشیہ:
قربانی کے جانور کا چمڑا اس کا جھول سب غرباءو مساکین میں للہ تقسیم کر دیا جائے یا ان کو فروخت کرکے مستحقین کو ان کی قیمت دے دی جائے، چمڑے کا خود اپنے استعمال میں مصلی یا ڈول وغیرہ بنانے کے لیے لانا بھی جائز ہے۔
آج کل مدارس اسلامیہ کے غریب طلباءبھی اس مد سے امداد کئے جانے کے مستحق ہیں جو اپنا وطن اور متعلقین کو چھوڑ کر دور دراز مدارس اسلامیہ میں خالص دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں اور جن میں اکثریت غرباءکی ہوتی ہے، ایسے مدرسے ان کی امداد بہت بڑا کار ثواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1718
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1707
1707. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1707]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی ہر چیز حتی کہ جھول تک بھی صدقہ کردی جائے اور قصائی کو ان میں سے اجرت میں کچھ نہ دیا جائے، اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2299
2299. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں قربانی کے ان اونٹوں کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں، جنھیں نحر (ذبح) کیا گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2299]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری ؒ نے جابر ؓ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔
اس میں صاف یوں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔
گویا آنحضرت ﷺ نے ان امور کے لیے حضرت علی ؓ کو وکیل بنایا۔
اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2299
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1707
1707. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1707]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اختصار ہے۔
درحقیقت رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربانی کے طور پر ذبح کیے تھے۔
حضرت علی ؓ کو ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1718) (2)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو جھول اور قلادے پہنائے جائیں۔
ان سے تو عمل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپائیں تاکہ ریاکاری نہ ہو جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ حج کے تمام اعمال اظہار پر مبنی ہی، مثلا:
احرام، طواف، وقوف، اسی طرح اشعار و تقلید میں بھی اظہار ہے۔
(فتح الباري: 694/3)
دراصل یہ انسان کی نیت پر موقوف ہے۔
اگر نیت میں نمودونمائش مقصود نہیں تو ان اعمال کے اظہار سے عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، اور اگر نیت میں ریاکاری اور نمودونمائش ہے تو اس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1707
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1716
1716. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1716]
حدیث حاشیہ:
(1)
جزار اس مزدوری کو کہتے ہیں جو قصاب کو اونٹ ذبح کرنے، کھال اتارنے اور اس کا گوشت بنانے کے عوض دی جاتی ہے۔
چونکہ عرب میں اونٹ کی سری اور پائے مزدوری میں دینے کا رواج تھا اور یہ دونوں قربانی کا حصہ ہیں جو محتاج لوگوں کو فی سبیل اللہ دینے چاہئیں، اس لیے اونٹ کے سری پائے یا کھال بطور مزدوری دینا منع ہے۔
(2)
پہلی حدیث میں قربانی کی جھولیں اور کھال تک خیرات کرنے کا بیان ہے۔
دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ قربانی کا کوئی حصہ قصاب کو بطور اجرت دینے کی ممانعت ہے بلکہ اسے معاوضہ اپنی طرف سے دینا چاہیے، تاہم خیرات کے طور پر گوشت وغیرہ قصاب کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔
جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا منع ہے اسی طرح اس کا کوئی حصہ بطور معاوضہ دینا بھی جائز نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1716
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1717
1717. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ وہ قربانی کے اونٹوں کی نگہداشت کریں اور ان کا گوشت چمڑا اور جھولیں سب خیرات کردیں، نیز قصاب کو بطور اجرت ان میں سے کوئی چیز نہ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1717]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ قربانی کے اونٹوں کی تعداد سو تھی۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1718)
ابوداود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیس اونٹ خود ذبح کیے اور باقی حضرت علی ؓ کے سپرد کر دیے کہ وہ انہیں نحر کریں۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1764)
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ قربان گاہ تشریف لے گئے، وہاں جا کر تریسٹھ اونٹ خود ذبح کیے اور باقی اونٹ حضرت علی ؓ نے نحر کیے اور آپ نے انہیں اپنی قربانیوں میں شریک کیا۔
پھر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہنڈیا میں پکایا گیا۔
پھر آپ دونوں نے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
ابوداود کی روایت کو شیخ البانی ؒ وغیرہ نے منکر اور صحیح مسلم کی روایت کو راجح قرار دیا ہے، تاہم اگر ابوداود کی روایت صحیح ثابت ہو جائے تو پھر ان روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلے آپ نے تیس اونٹ ذبح کیے، پھر حضرت علی ؓ نے سینتیس اونٹ نحر کیے، اس کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ نے تینتیس اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کیے۔
(2)
قربانی کی کھالیں غرباء و مساکین میں تقسیم کر دینی چاہئیں۔
انہیں فروخت کر کے ان کی رقم بھی دی جا سکتی ہے۔
قربانی کی کھال کو ڈول یا مصلے کی شکل میں خود بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”قربانی اور ہدی کے گوشت کو مت فروخت کرو، خود کھاؤ اور اپنے تصرف میں لاؤ، اسی طرح ان کی کھالیں خود استعمال کرو، انہیں مت فروخت کرو، ان کا گوشت خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔
“ (مسندأحمد: 15/4)
بہرحال قصاب کو بطور اجرت دینا منع ہے، ہاں اسے گوشت بطور صدقہ ہدیہ دینا جائز ہے مگر احتیاط اسی میں ہے کہ اسے گوشت نہ دیا جائے کیونکہ اس طرح مزدودی میں وہ کچھ نہ کچھ لحاظ کرے گا۔
(فتح الباري: 703/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1717
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1718
1718. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت صدقہ کردوں تو میں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے انھیں بھی بانٹ دیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی کھالیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے وہ بھی تقسیم کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1718]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت، جھولیں اور کھالیں تقسیم کر دینا مسنون عمل ہے اور اس کارخیر کے لیے کسی کو وکیل بھی بنایا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کے غریب طلباء بھی اس کے حقدار ہیں، قربانی کی کھالیں انہیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
(2)
ہمارے ہاں دیہاتوں میں کھالیں وغیرہ ائمہ مساجد کو دے دی جاتی ہیں جس طرح قصاب کو بطور اجرت کھال نہیں دی جا سکتی اسی طرح امام مسجد کو بھی بطور حق الخدمت قربانی کی کھال دینا درست نہیں۔
اگر وہ غریب یا مسکین ہے تو اسے بقدر حصہ دیا جا سکتا ہے، تاہم تمام کھالوں پر قبضہ جما لینا کسی صورت میں جائز نہیں کیونکہ یہ غرباء اور مساکین کا حق ہے اور ان کو یہ حق ملنا چاہیے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1718
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2299
2299. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں قربانی کے ان اونٹوں کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں، جنھیں نحر (ذبح) کیا گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2299]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریک کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ وکیل کو کسی کام میں شریک بنانا جائز ہے۔
(2)
اگرچہ اس حدیث میں شریک بنانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت علی ؓ کو اپنی قربانیوں میں شریک کرلیا، پھر انھیں تقسیم کرنے پر مامور فرمایا، یعنی قربانیوں کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی، ان میں سے تریسٹھ اونٹ خود ذبح کیے اور باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے متعلق حضرت علی ؓ کو حکم دیا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
، و فتح الباري: 604/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2299