حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ، فَأُتِيَ بِقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ فِيهِ، قَالَ أَنَسٌ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَاءِ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، قَالَ أَنَسٌ: فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّأَ مَا بَيْنَ السَّبْعِينَ إِلَى الثَّمَانِينَ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 169
´نماز کا وقت ہو جانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے`
«. . . عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ " . . . .»
”. . . اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آ گیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انہیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی (برتن) سے وضو کریں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی (چشمے کی طرح) ابل رہا تھا۔ یہاں تک کہ (قافلے کے) آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْتِمَاسِ الْوَضُوءِ إِذَا حَانَتِ الصَّلاَةُ:: 169]
تشریح:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ ایک پیالہ پانی سے سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ وضو کے لیے پانی تلاش کرنا اس سے ثابت ہوا، نہ ملے تو پھر تیمم کر لینا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 169
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 195
´لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو`
«. . . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَامَ مَنْ كَانَ قَرِيبَ الدَّارِ إِلَى أَهْلِهِ وَبَقِيَ قَوْمٌ، " فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيهِ مَاءٌ، فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيهِ كَفَّهُ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ "، قُلْنَا: كَمْ كُنْتُمْ، قَالَ: ثَمَانِينَ وَزِيَادَةً . . . .»
”. . . ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، کہا ہم کو حمید نے یہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے انس سے نقل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نماز کا وقت آ گیا، تو جس شخص کا مکان قریب ہی تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور کچھ لوگ (جن کے مکان دور تھے) رہ گئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پتھر کا ایک لگن لایا گیا۔ جس میں کچھ پانی تھا اور وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلا سکتے تھے۔ (مگر) سب نے اس برتن کے پانی سے وضو کر لیا، ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کتنے نفر تھے؟ کہا اسی (80) سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ فِي الْمِخْضَبِ وَالْقَدَحِ وَالْخَشَبِ وَالْحِجَارَةِ:: 195]
تشریح:
یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ اتنی قلیل مقدار سے اتنے لوگوں نے وضو کر لیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 195
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3575
3575. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ نماز کاوقت ہوگیا تو جس کا گھر مسجد کے قریب تھا وہ اپنے گھر وضو کرنے کے لیے چلا گیا۔ کچھ لوگ باقی رہ گئے تو نبی کریم ﷺ کے پاس پتھر کا بنا ہو ایک برتن لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آپ نے اپنی ہتھیلی اس میں رکھنا چاہی لیکن اس کامنہ اتنا تنگ تھا کہ آپ اس کے اندر اپنی ہتھیلی پھیلا کر نہیں رکھ سکتے تھے، چنانچہ آپ نے اپنی انگلیاں سمیٹ کر اس برتن میں رکھیں۔ پھر تمام لوگوں نے اس سے وضو کیا۔ (راوی کہتا ہے:)میں نے حضرت انس ؓسے پوچھا: وہ کتنے لوگ تھے؟انہوں نے بتایا کہ اسی(80)آدمی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3575]
حدیث حاشیہ:
یہ چار حدیثیں حضرت انس ؓنے بیان کی ہیں اور ہر ایک میں ایک علیحدہ واقعہ کا ذکر ہے۔
اب ان میں جمع کرنے اور اختلاف رفع کرنے کے لیے تکلف کی ضرورت نہیں ہے (وحیدی)
چاروں احادیث میں آپ کے معجزہ کا تذکرہ ہے۔
اسی لیے اس باب کے ذیل ان کو لایا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3575
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 169
169. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا۔ آخر رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگشت ہائے مبارک کے نیچے سے پھوٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:169]
حدیث حاشیہ:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ ایک پیالہ پانی سے سب لوگوں نے وضو کرلیا۔
وضو کے لیے پانی تلاش کرنا اس سے ثابت ہوا، نہ ملے تو پھر تیمم کرلینا چاہئیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 169
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 169
´ نماز کا وقت ہو جانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ . . .»
”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آ گیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انہیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی (برتن) سے وضو کریں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 169]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث اور باب میں اختلاف نظر آ رہا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق انداز سے ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
◈ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
«التنبيه على ان الوضؤ لا يجب قبل الوقت» [المتواري ص 70]
اس باب میں اس طرف تنبیہ کی گئی ہے کہ وضوء وقت سے قبل واجب نہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اراد الاستدلال على انه لايجب طلب الماء للتطهير قبل دخول الوقت، لان النبى صلى الله عليه وسلم لم ينكر عليهم التأخير فدل على الجواز» [فتح الباري ج1ص 220]
امام بخاری رحمہ اللہ کا طریقہ استدلال یہ ہے کہ پاکیزگی کا پانی (یعنی وضوء کا) وقت سے قبل حاصل کرنا واجب نہیں۔
◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ باب میں ذکر ہے «فالتمس الماء» اور تحت الباب جو حدیث ہے اس میں مذکور ہے «فالتمس الناس الوضوء» اور یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو نزول آیت تییم میں ہے جس کا ذکر کتاب التیمم میں مصنف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص 50]
↰ لہٰذا اگر باب کی طرف نگاہیں دوڑائیں تو وہاں بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب نماز کا وقت آ جائے تو پانی تلاش کرنا اور حدیث بھی اسی طرف ہی اشارہ کرتی ہے کہ جب نماز کا وقت آ گیا تھا تب ہی صحابہ کرام پانی کی تلاش میں نکلے یہی مناسبت ہے باب اور حدیث کی۔
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ذکر ہے یاد رہے کہ معجزہ دکھا نا صرف اللہ تعالیٰ کی ہی منشاء پر موقوف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
« ﴿وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ » [غافر: 78]
”کسی رسول کے اختیار میں نہیں کہ وہ کوئی معجزہ دکھا سکے مگر جب اللہ چاہے۔“
مغربی تعلیم سے متاثر زدہ حضرات نے کئی مرتبہ معجزات کا انکار کیا ہے مستشرقین کا تو وطیرہ ہی اسلام پر طعن کرنا ہے، مگر نام نہاد مسلمان کہلانے والے بھی اپنے باطل نظریات کی ترقی و ترویج کیلئے معجزات کا انکار کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کے رد میں شیخ السلام رحمہ اللہ نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ”کتاب النبوات“ اور الصفدیۃ“ جس میں آپ نے ان معجزات کے منکروں کا علمی رد فرمایا ہے، قرآن مجید میں نصوص کے ساتھ معجزات کا ذکر موجود ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی ان گنت واقعات معجزات پر دال ہیں جس کا انکار نفس پرستی اور کفر کے سوا کچھ نہیں۔ مثلاً
➊ آگ کا ٹھنڈا ہونا ابراھیم علیہ السلام کے لیے۔ [الانبياء 69/21-70]
➋ عصائے موسیٰ اور ید بیضا۔ [النحل۔ طه 20/20-21]
➌ دریا کا پھٹنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کیلئے۔ [البقرة: 50/2]
➍ بارہ چشموں کا پھٹنا بنی اسرائیل کے لئے۔ [البقرۃ: 20/2]
➎ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات۔ [مريم: 14/19، 34، النساء: 107]
➏ مردوں کو زندہ کرنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ۔ [المائده: 110/5]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات:
➊ انشقاق قمر، [القمر: 1/54]
➋ واقعہ اسراء [اسراء: 1/17]
↰ ان کے علاوہ کئی معجزات کا مزید ذکر ملتا ہے اب انکا انکار کفر کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ دور میں ایسے کئی گمراہ نظریات کے حامی موجود ہیں جو مغربی تعلیم سے متاثر ہو کر اتنے اندھے ہو گئے کہ مسلمان کا لبادہ اوڑھ کر معجزات کا انکار کر بیٹھے کیوں کہ اہل مغرب کے ہاں جو بات مافوق الفطرت (Supper Natural) یا خرق عادت ہو وہ اسے ناممکن یا خلاف عقل سمجھ کر رد کر دیا کر تے ہیں۔ اس مغربی روشنی میں بہنے والے سرسید احمد خان بھی سرفہرست ہیں جو نے مغربی تعلیم کی آبیاری اور اس کی ترویج کے لئے کئی معجزات کا انکار کر بیٹھے۔ مزید یہ کہ اسی دور میں آپ نے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی اور اپنے نظریات کے حامل مذموم عقائد کو عوام تک ارسال کیا۔ آپ نے نظریہ ارتقاء اور اس جیسے کئی بناوٹی (Theory) سے متاثر تھے اور ان نظریات کے حامل تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے آپ نے!
➊ انبیاء کے معجزات کا انکار کیا یا پھر اس کی غلط تاویل پیش کی۔
➋ معجزات کے علاوہ وہ باتیں جو خوارق عادت میں سے تھیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اس میں ایسی تاویلات پیش کیں جو مضحکہ خیز ہیں۔
➌ ڈارون نظریہ سے متاثر ہو کر آدم علیہ السلام کا فرد واحد یا نبی ہونے کا بھی انکار کر دیا
➍ کئی مقامات پر فرشتوں کے معاملے میں بھی عجیب باتیں لکھیں جس سے ایمان بالغیب پر زد پڑتی ہے۔
➎ دور جدید کے مسائل کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کا حلیہ بگاڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔
ایسے لوگوں سے آج بھی دینی علم حاصل کیا جا رہا ہے جو کہ گمراہی کی دلیل ہے سچ کہا تھا امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے! ”صغیر (عقل پرست) سے علم حاصل کیا جائے گا۔“ [كتاب الذهد، عبدالله بن مبارك ص 61]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 121
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 57
´ایک برتن سے بہت سے لوگوں کا وضو کرنا جائز ہے`
«. . . مالك عن إسحاق بن عبد الله بن ابى طلحة عن انس بن مالك قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك الإناء يده وامر الناس ان يتوضؤوا منه. قال: فرايت الماء ينبع من تحت اصابعه، فتوضا الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم . . .»
”. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، عصر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا مگر پانی نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کاحکم دیا۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی پھوٹ رہا تھا پھر (لشکر کے) آخری آدمی تک تمام لوگوں نے اس پانی سے وضو کر لیا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 57]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 169، ومسلم 2279، من حديث مالك به]
تفقه
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے بطور معجزہ پانی کا چشمہ جاری کر دیا تھا لہٰذا یہ حدیث بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی و رسول ہونے کی بےشمار دلیلوں میں سے ایک عظیم الشان دلیل ہے۔
➋ اہل ایمان کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ پر مکمل ایمان لاتے ہیں، کسی قسم کا شک نہیں کرتے جبکہ منکرین کتاب و سنت کا یہ وطیرہ ہے کہ اپنی نام نہاد عقل کی وجہ سے قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور معجزات ثابتہ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ انکار، ملحدانہ تاویلات اور باطنی افکار کے درایتی و درانتی معیار کی وجہ سے انھیں رد کر دیتے ہیں۔
➌ دعا کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب کا حتی الوسع اہتمام ہونا چاہئے۔
➍ اللہ تعالیٰ نیچر اور اس کے قوانین کا خالق ہے، وہ جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
➎ ایک برتن سے بہت سے لوگوں کا وضو کرنا جائز ہے۔
➏ بعض صحیح روایات میں آیا ہے کہ وضو کرنے والوں کی تعداد ستّر سے اسّی کے درمیان تھی۔
➐ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں مثلاً بیعت رضوان کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے ایک برتن میں پانی جاری فرمایا جس سے پندرہ سو کے قریب صحابہ سیراب ہوئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ۔
➑ حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے کہ پانی مل جائے اور اس سے وضو کر کے نماز پڑھی جائے اور تیمّم صرف اس وقت جائز ہے جب پانی نہ ملے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 114
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 76
´برتن سے وضو کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عصر کا وقت قریب ہو گیا تھا، تو لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر وہ پانی نہیں پا سکے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھوڑا سا وضو کا پانی لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا، اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا ہے، حتیٰ کہ ان کے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 76]
76۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مطلب یہ ہے کہ برتن سے چلو لے کر وضو کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طریقے سے بار بار ہاتھ کو برتن میں داخل کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہاتھ کو لگا ہوا سابقہ پانی بھی برتن میں گرے گا، مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔
➋ اس قسم کے بہت سے واقعات صحیح احادیث میں مذکور ہیں کہ تھوڑا پانی بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا حتیٰ کہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے پانی کو بڑھتا ہوا دیکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 291، 290/2]
اسی طرح کئی دفعہ تھوڑا کھانا بھی بہت سے افراد کو کفایت کر گیا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4102]
لہٰذا ان معجزات کا انکار کرنا دوپہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس چیز کو برکت کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے تو وہاں اس جہان کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اگر منی کے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے سے اتنا بڑا انسان بن سکتا ہے، ایک چھوٹے سے بیج سے اتنا بڑا درخت وجود میں آ سکتا ہے، تو ان واقعات پر کیا تعجب ہے؟ وقت، جگہ اور حد ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند و بالا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 76
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 78
´وضو کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام نے وضو کا پانی تلاش کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟“ (تو ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یہ فرماتے ہوئے پانی میں ڈالا: ”بسم اللہ کر کے وضو کرو“ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا تھا، حتیٰ کہ ان میں سے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے؟ تو انہوں نے کہا: ستر کے قریب ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 78]
78۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، البتہ اختلاف اس مسئلے میں یہ ہے کہ کیا بسم اللہ پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور اہل علم کے نزدیک وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے کیونکہ وہ مذکورہ حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو سنت اور مشروعیت پر محمول کرتے ہیں جبکہ امام حسن، اسحاق بن راہویہ اور اہل ظاہر کا موقف یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو نہیں ہو گا، اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ دیکھیے: [صحیح الترغیب: 201/1]
کیونکہ وہ اس حدیث: «لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ عليه» ”جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو ہی نہیں۔“ [جامع الترمذی، الطھارة، حدیث: 25]
کو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو وجوب پر محمول کرتے ہیں۔ امام اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر کوئی وضو میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا کسی تاویل کی بنا پر وضو سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو ہو جائے گا۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25]
بہرحال دلائل کی رو سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے جیسا کہ امام اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سبل السلام: 86/1، وإرواء الغلیل: 122/1]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 78
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5941
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا تو آپ کے پاس ایک کھلا پیالا لایا گیا تو لوگ وضو کرنے لگے، میں نے اندازہ لگایا،وہ ساٹھ اور اسی کے درمیان تھے۔ اور میں پانی کو دیکھنے لگا، وہ آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5941]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
دحداح:
تھال کی طرح چھوٹے کناروں والا کھلا پیالہ،
جس میں زیادہ پانی نہیں آتا۔
فوائد ومسائل:
انگلیوں سے پانی کا پھوٹنا خرق عادت ہے،
جو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے،
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے معجزہ کے طور پر اس کو انگلیوں سے جاری کر دیا اور جو لوگ اللہ کی قدرت پر نظر نہیں رکھتے کہ علت اور معلول کا سلسلہ اس کا پیدا کردہ ہے اور اشیاء میں خواص اس کے رکھے ہوئے ہیں،
وہ ان کا محتاج نہیں ہے اور وہ علت کے بغیر معلول پیدا کر سکتا ہے،
اشیاء سے ان کے خواص سلب کر سکتا ہے،
وہ معجزات کے منکر ہیں،
کیونکہ ان کے بقول علت اور معلول ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے،
ان کا وجود ایک دوسرے کے ساتھ ہی پایا جا سکتا ہے،
حالانکہ یہ بات غلط ہے اور آج آئن سٹائن نے تسلیم کر لیا ہے کہ لزوم اور خواصہ مستقل وجود رکھتے ہیں،
ملزوم اور خاصہ والی چیز کے ساتھ ہی نہیں ہوتے،
اس لیے یہ ایک دوسرے کے بغیر پائے جا سکتے ہیں،
اللہ تعالیٰ ملزوم،
معلول،
لزوم اور علت کے بغیر پیدا کر سکتا ہے،
اسی طرح لازم ملزوم کے بغیر اور علت،
معلول کے بغیر پائی جا سکتی ہے،
اللہ تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے،
وہ ہر چیز پر قادر ہے اور معجزہ اللہ کا ہی عمل ہے،
جو رسول کے ہاتھوں ظاہر فرماتا ہے۔
(تکملہ ج 4 ص 475)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5941
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:169
169. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا۔ آخر رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگشت ہائے مبارک کے نیچے سے پھوٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:169]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہو گی جب نماز کا وقت آ جائے کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ ہو تو وضو کرنا چاہیے یعنی طہارت کا یہ فریضہ نماز کا وقت آنے پر عائد ہوتا ہے، اس لیے پانی کی تلاش بھی وقت آنے پر ہی ضروری ہوگی، اس سے پہلے پانی کی تلاش کا مکلف قرارنہیں دیا جا سکتا جس نے وقت آنے پر پانی تلاش کیا اور نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا اسے ملامت نہیں کی جائے گی کہ اس نے قبل از وقت پانی تلاش کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ایک سفر میں میرا ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو اس منزل سے پہلے ٹھہرنا پڑا جہاں پانی ملنے کی توقع تھی پانی نہ ملنے کے سبب پریشانی ہوئی تو آیت تیمم نازل ہوئی عنوان بایں طور ثابت ہوا کہ پانی کی تلاش وقت نماز کے بعد کی گئی۔
پانی نہ ملنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ تم نے پہلے سے بندوبست کیوں نہ کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے پانی کی تلاش ضروری نہیں۔
2۔
حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے کہ آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹے جس سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وضو کیا اس واقعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی ہے کہ بلاشبہ پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہوگی جب نماز کا وقت آجائے گا۔
لیکن تلاش کے بعد پانی نہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ وہ اس حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ پانی نہ ملنے کی معتاد اور غیر معتاد تمام صورتیں ختم ہو جائیں تو تیمم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی غیر معتاد طریقے سے پانی ملنے کا امکان ہوتو تیمم جائز نہ ہو گا۔
اگر غیر معتاد صورت بھی ختم ہو جائے تو تیمم جائز ہوگا یعنی جب تک تمام ظاہری اور غیر ظاہری اسباب ختم نہ ہو جائیں اور ہر طرف سے مایوسی نہ ہو جائے اس وقت تک تیمم کرنا جائزنہیں۔
اس حدیث کا عنوان سے گہرا تعلق ہے لیکن جو لوگ احادیث بخاری کے متعلق شبہات و تشکیک پیدا کرنے کے خوگر ہیں وہ کسی انداز میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں چنانچہ ”امام تدبر“ لکھتے ہیں:
”امام صاحب نے باب میں تعلیق صبح کی نماز کی دی ہے جبکہ روایت نماز عصر سے متعلق ہے اور اس میں تیمم کی نوبت نہیں آئی۔
“ (تدبر حدیث: 272/1)
یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم اور سوچ بچار کا محور! اب انھیں کون بتائے کہ تعلیق کا واقعہ اور ہے اور روایت میں اس کے علاوہ دوسرا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی ایک راوی بیان کرتے ہیں تمام روایات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں چنانچہ حسن بصری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کسی سفر میں رونما ہوا تھا اور اس میں حاضرین کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3574)
جبکہ حضرت قتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینے کی نواحی آبادی زوراء میں تھے اور اس پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3572)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعداد واقعات پر محمول کرنے کے علاوہ جمع و تطبیق کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔
(فتح الباري: 714/6)
4۔
بخاری کے شارح ابن بطال نے دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے رونما ہوا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اسے کوئی دوسرا بیان کرنے والا نہیں۔
(شرح إبن بطال: 264/1)
قاضی عیاض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کو عدد کثیر نے جم غفیر سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہےاس کے علاوہ پانی کے زیادہ ہونے کے معجزے کو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حبان الصدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیان کرتے ہیں جو مختلف کتب حدیث میں مروی ہے۔
(فتح الباري: 715/6)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات و طرق کے بعد ابن بطال کا نام لے کر ان کے دعوائے بے بنیاد کی تردید کی ہے لیکن جو حضرات تدبر کی آڑ میں احادیث بخاری کا استخفاف اور ان میں تشکیک پیدا کرنے کی سعی نامشکور کرنے کے درپے رہتے ہیں انھوں نے اندھیرے میں بایں الفاظ تیر پھینکا ہے۔
”اس روایت میں ایک مشکل یہ ہے کہ موقع ایسا ہے جب بہت سے لوگوں نے وضو کیا اور یہ معجزہ دیکھا ہو گا۔
لہٰذا یہ واقعہ متعدد طریقوں سے نقل ہونا چاہیے تھا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اس کی روایت نہیں ہے قاضی عیاض کا دعوی ہے کہ اس کے راوی بے شمار ہیں یہ تواتر سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ روایات ہیں کہاں! ابن حجر کو بھی یہ بات کھٹکی ہے کہ اتنے اہم واقعہ کے ایک ہی راوی ہیں۔
“ (تدبر حدیث: 271/1)
اس عبارت میں کس قدر دجل و فریب سے کام لیا ہے اور محدثین کے متعلق کس قدر زہر اگلا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔
دراصل یہ حضرات جاہلی ادب پڑھتے پڑھتے احادیث کے متعلق جہالت کا شکار ہیں۔
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ اس حدیث کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:195
195. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کا وقت ہو گیا تو جس شخص کا گھر قریب تھا وہ تو اپنے گھر (وضو کرنے کے لیے) چلا گیا جبکہ کچھ لوگ باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک پتھر کا برتن لایا گیا جس میں کچھ پانی تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہ پھیلا سکے لیکن (اس کے باوجود) سب لوگوں نے اس سے وضو کر لیا۔ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا کہ تم اس وقت کتنے لوگ تھے؟ انھوں نے فرمایا: اَسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:195]
حدیث حاشیہ:
1۔
عہد رسالت میں مساجد میں وضو کرنے کا دستورنہیں تھا اور نہ مساجد میں پانی وغیرہ کا انتظام ہی ہوتا تھا، اس لیے جن لوگوں کے مکان قریب تھے وہ تو وضو کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، اسی (80)
سے کچھ زیادہ آدمی باقی رہ گئے، انھوں نے نماز کے لیے وضو کرنا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا مخضب (لگن یا ٹب)
لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس میں ڈال دیا۔
پانی میں اس قدر برکت ہوئی کہ انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے۔
اس روایت میں مخضب سے نوع اور (مِن حِجَارَة)
سے مادہ کا مسئلہ ثابت ہوا۔
مخضب اگرچہ بڑے برتن کو کہا جاتا ہے، لیکن چھوٹے برتن پر بھی اہل زبان مخضب کا لفظ بول دیتے ہیں، جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
(فتح الباري: 394/1)
2۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی سے صادر نہیں ہوا، یعنی رسول اللہﷺ کے گوشت اور رگ پٹھوں سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے اور آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کا نکلنا بہ نسبت پتھر سے پانی نکلنے کے زیادہ حیران کن ہے جو حضرت موسیٰ کے عصائے مبارک کو پتھر پر مارنے سے جاری ہوا تھا، کیونکہ پتھر سے پانی نکلنا سب کو معلوم ہے، لیکن لحم و دم سے پانی کا پھوٹنا بہت عجیب اور نئی بات ہے۔
اگرچہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کے پانی میں ہونے کی وجہ سے پانی میں خود ہی برکت اوراضافہ ہوا ہو اور دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوا کہ پانی انگلیوں سے نکل رہا ہے، مگر پہلی صورت معجزے کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، جبکہ آثار واحادیث میں اس کے خلاف کوئی چیز بھی مروی نہیں۔
(فتح الباري: 715/6)
3۔
دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج نے حسب عادت اس معجزہ نبوی سے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا ہے۔
اگرچہ کھلے الفاظ میں اس کا اظہارتو نہیں کیا، البتہ احادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے، چنانچہ تدبرحدیث کی آڑ میں اصلاحی صاحب علیہ ما علیہ لکھتے ہیں:
” برکت کا میں قائل ہوں۔
انبیاء سے اس طرح کے معجزے ظاہر ہوتے(رہے)
ہیں۔
تردد جو ہوتا ہے وہ اس بات میں ہے کہ واقعہ ایک اعجوبہ ہے۔
معجزہ کی حیثیت سے اس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
دیکھنے والوں کی خاص تعداد ہے۔
لیکن بیان کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں، کوئی اور صاحب اس کو بیان نہیں کرتے اس کی کیا وجہ ہے؟“ (تدبرحدیث: 294/1)
دراصل ان حضرات کا طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی کتاب میں کوئی اعتراض اور اس کا جواب دیکھتے ہیں تو اعتراض کو اچھالنا شروع کردیتے ہیں۔
اس مقام کو لیجیے کہ شارح بخاری ابن بطال نے اپنے انداز میں یہ لکھا کہ اس واقعہ کو ایک جم غفیر نے دیکھا، لیکن روایت کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا بھرپور جواب دیا جس کی وضاحت ہم حدیث: 169 میں کرآئے ہیں۔
لیکن ان حضرات کا دجل اور فریب ملاحظہ کریں کہ اعتراض نقل کرکے جواب گول کر دیا۔
اسی طرح رسالہ تدبر کی کسی اشاعت میں حدیث افک پر ان حضرات کی طرف سے بڑے”وزنی“ اعتراضات شائع ہوئے۔
راقم الحروف نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان اعتراضات کو نقل کرکے ایک ایک کا جواب دیا ہے، لیکن ان حضرات کو تواحادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنا مقصود ہے، خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کام لینا پڑے۔
حدیث افک پر ان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کتاب المغازی ”حدیث افک“ کی شرح میں بیان کیے جائیں گے۔
4۔
حضرت انس ؓ سے مروی یہ معجزہ نبوی دراصل دو واقعات سے متعلق ہے، کیونکہ پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اورجائے وقوعہ کی تعيین مختلف فیہ ہے، اس لیے ان مختلف روایات کو جمع کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔
حضرت انسؓ سے جب حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی سفر سے متعلق ہے۔
بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3574)
اور جب حضرت انس ؓ سے قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا تھا اور وضو کرنے والوں کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی۔
(فتح الباري: 714/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 195
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3574
3574. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اپنے کسی سفر میں باہر تشریف لے گئے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت بھی تھی۔ چلتے چلتے نماز کا وقت آگیا لیکن وضو کے لیے پانی کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ آخر قوم میں سے ایک آدمی گیا اور ایک پیالہ لے آیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے لیا اور اس سے وضو کیا۔ پھر اس پیالے میں اپنی چار انگلیوں کو رکھ دیا۔ پھر لوگوں سے فرمایا: ”اٹھو اور وضو کرو۔ “چنانچہ انھوں نے اس سے وضو کیا اور اس سے اپنی دیگر ضروریات بھی پوریں کریں اور وہ تعداد میں ستر یا اس کے لگ بھگ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3574]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت انس ؓ سے مروی یہ چار احادیث امام بخاری ؒ نے بیان کی ہیں اور ہر ایک میں علیحدہ علیحدہ واقعے کاذکر ہے۔
تھوڑے سے پانی کو زیادہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنے کا معجزہ صرف رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے،آپ کے علاوہ کسی اور نبی کو یہ معجزہ نہیں ملا۔
یہ پانی رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں سے ہی نکل رہا تھا یا بذات خود پانی زیادہ ہورہا تھا لیکن انگلیوں سے جوش مار کر بہہ رہا تھا۔
گوحضرت موسیٰ ؑنے پتھر پر لاٹھی مارکراس سے پانی جاری کیا تھا لیکن پتھروں سے طبعاً پانی نکلتا رہتا ہے،ان سے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں،ہاتھ کی انگلیوں سے پانی بہہ نکلنا عجیب تر ہے،اس لیے ہمارے نبی کریم ﷺ کے اس معجزے کو حضر موسیٰ ؑ کے معجزے پر فوقیت حاصل ہے۔
2۔
واضح رہے کہ ان احادیث کو حضر ت انس ؓ سے بیان کرنے والے ان کے چار مختلف شاگرد ہیں۔
پہلی حدیث قتادہ سے،دوسری اسحاق سے،تیسری حسن سے اور چوتھی حمید سے ہے۔
ان کے متن،تعین مکان اور تعداد اشخاص میں مغایرت ہے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ مختلف واقعات ہیں۔
امام بخاری ؒکے انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3574