سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
63. بَابُ : قَدْرِ حَصَى الرَّمْيِ
باب: رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟
حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ:" الْقُطْ لِي حَصًى"، فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَيَاتٍ، هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ، فَجَعَلَ يَنْفُضُهُنَّ فِي كَفِّهِ، وَيَقُولُ:" أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا"، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے: ”میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ“، چنانچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں، آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے: ”انہیں جیسی کنکریاں مارو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 217 (3059)، 219 (3061)، (تحفة الأشراف: 5427)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/215، 347، 5/127) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غلو: کسی کام کو حد سے زیادہ بڑھا دینے اور اس میں ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کو غلو کہتے ہیں، مثلاً کنکریاں مارنے کا حکم ہے تو چھوٹی کنکریاں کافی ہیں، اب غلو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنکریاں مارے یا پتھر پھینکے اور اس کو زیادہ ثواب کا کام سمجھے، دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے اور یہ حماقت کی دلیل ہے، یہ بھی غلو ہے کہ مثلاً کسی نے مستحب یا سنت کو ترک کیا تو اس کو برا کہے اور گالیاں دے، اگر کوئی سنت کو ترک کرے تو صرف نرمی سے اس کوحدیث سنا دینا کافی ہے، اگر لوگ فرض کو ترک کریں تو سختی سے اس کو حکم کرنا چاہئے، لیکن اس زمانہ میں یہ حال ہو گیا ہے کہ فرض ترک کرنے والوں کو کوئی برا نہیں کہتا ہے، لوگ تارکین صلاۃ، شرابیوں اور سود خوروں سے دوستی رکھتے ہیں، لیکن اذان میں کوئی انگوٹھے نہ چومے یا مولود میں قیام نہ کرے تو اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی درجے کا غلو ہے، اور ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہو گئے، اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3029 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3029
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمی کرنے کے لیے کنکریاں کسی بھی جگہ سے لی جا سکتی ہیں اگرچہ منی ہی سے لے لی جائیں۔
صرف وہ کنکریاں لینا منع ہیں جو پہلے جمرات پر ماری جا چکی ہوں۔
(2)
عوام میں مشہور ہے کہ رمی کے لیے کنکریاں مزدلفہ سے چن کر لانی چاہیئں، یہ درست نہیں۔
نبی ﷺ نے منی ہی سے سات کنکریاں لی تھیں۔
چار دن کی کنکریاں اکھٹی نہیں لیں۔
(3)
رمی کے لیے چنی ہوئی کنکریوں کو دھونا ایک بے اصل مسئلہ ہے۔
جس کی کوئی اہمیت نہیں۔
(4)
دین کے کسی کام میں بھی سنت کی مقرر کی ہوئی حد سے بڑھنا شیطان کو خوش کرنے والا کام ہے۔
سنت کے مطابق چھوٹی کنکریاں مارنے سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے۔
کیونکہ اس سے مومن کو ثواب ملتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3029