سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
47. بَابُ : الْعُمْرَةِ فِي رَجَبٍ
باب: ماہ رجب میں عمرہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2998
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ : فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ :" مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ قَطُّ، وَمَا اعْتَمَرَ إِلَّا وَهُوَ مَعَهُ" تَعْنِي: ابْنَ عُمَرَ.
عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس مہینہ میں عمرہ کیا؟ تو انہوں نے کہا: رجب میں، اس پر ام المؤمنین عائشہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رجب میں عمرہ نہیں کیا، اور آپ کا کوئی عمرہ ایسا نہیں جس میں وہ یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ نہ رہے ہوں۔
تخریج الحدیث: «حدیث ابن عمر أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 35 (1255)، سنن الترمذی/الحج 93 (936)، (تحفة الأشراف: 7321)، حدیث عائشہ أخرجہ: سنن الترمذی/ الحج 93 (936)، (تحفة الأشراف: 17373)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمرة 3 (1777)، سنن ابی داود/الحج 80 (1994)، مسند احمد (1/246) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ بھول گئے ہیں اور غلطی سے رجب کہہ دیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2998 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2998
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس معاملے میں بھول ہو گئی اس لیے انھوں نے یہ بات یقین کے انداز سے بیان نہیں فرمائی۔
مذکورہ بالا سوال خود حضرت عروہ ؒ ؓنے کیا تھا جب کہ حضرت عروہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے قریب تشریف فرما تھے اور ام المومنین نے ان کا سوال اور جواب سنا۔
اس پر عروہ ؓ نے ام المومنین ؓ سے تصدیق چاہی تو انھوں نے حجرے کے اندر سےمذکورہ بالا جواب سنا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین کی یہ بات سن کر خاموش رہے نہ انکار کیا نہ اقرار۔ (صحيح مسلم، الحج، باب بيان عدد عمر النبي ﷺوزمانهن، حديث: 1253)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2998
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3036
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں، میں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے، اور ہم ان (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے مسواک کرنے کی آواز سن رہے تھے، وہ مسواک کر رہی تھیں، میں نے پوچھا، اے ابو عبدالرحمٰن! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ تو میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آواز دی، اے امی جان! جو کچھ ابو عبدالرحمٰن کہہ رہے ہیں، کیا وہ آپ سن... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3036]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے ہیں،
پہلا عمرہ 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے سال ذوالقعدہ میں جومحض اجروثواب کے لحاظ سے ہواعملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھیوں سمیت روک دیا گیا دوسرا اگلے سال 7 ہجری ذوالقعدہ میں جو قضا (صلح)
کے نتیجہ میں ہوا۔
اس لیے عمرہ القضاء کہلایا تیسرا سن 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد جعرانہ سے کیا،
اورچوتھے عمرہ کا احرام،
حج کےساتھ ذوالقعدہ میں باندھا اگرچہ ادا ذوالحجہ میں کیا گیا،
اور ان سب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک تھے لیکن ایک عمرہ کو رجب میں قرار دیا،
جس سے معلوم ہوتا ہے بسا اوقات انسان ایک واقعہ میں شریک ہوتا ہے لیکن اس کے وقت ماہ یا سال کو بھول جاتا ہے اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاموشی اختیار کر لی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3036
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3037
مجاہد بیان کرتے ہیں، میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوئے، دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ کے پاس تشریف فرما ہیں، اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں، تو ہم نے ان (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا؟ انہوں نے جواب دیا، بدعت ہے، عروہ نے ان سے پوچھا، اے ابو عبدالرحمٰن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے تھے؟ انہوں نے جواب دیا، چار، ان میں سے ایک رجب میں کیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3037]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لوگ اجتماعی طور پر مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے اس مخصوص صورت کو کہ لوگ مسجد میں جمع ہو کر نمازچاشت ادا کریں،
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدعت قرار دیا،
جس سے معلوم ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کسی عبادت کے لیے اپنی طرف سے مخصوص شکل بنا لینے کو بھی بدعت قرار دیتے تھے گویا کہ یہ بدعت اصلی اور ذاتی نہیں تھی۔
بلکہ بدعت وصفی تھی جو اپنے اصل اورذات کے اعتبار سے تو ثابت ہوتی ہے لیکن مخصوص ہئیت اور کیفیت اپنی طرف سے وضع کرلی جاتی ہے وگرنہ چاشت کی نماز تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہے،
جیسا کہ چاشت کی نماز کی بحث میں گزر چکا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3037