سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
28. بَابُ : مَنِ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِهِ
باب: چھڑی سے حجر اسود کے استلام (چھونے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2947
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، قَالَتْ:" لَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، طَافَ عَلَى بَعِيرهُ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ بِيَدِهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْكَعْبَةَ فَوَجَدَ فِيهَا حَمَامَةَ عَيْدَانٍ فَكَسَرَهَا، ثُمَّ قَامَ عَلَى بَاب: الْكَعْبَةِ فَرَمَى بِهَا، وَأَنَا أَنْظُرُهُ".
صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فتح مکہ کے سال اطمینان ہوا تو آپ نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ حجر اسود کا استلام ایک لکڑی سے کر رہے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی، پھر کعبہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس میں لکڑی کی بنی ہوئی کبوتر کی مورت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑ دیا، پھر کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور اسے پھینک دیا، اس وقت میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 49 (1878)، (تحفة الأشراف: 15909) (حسن)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1641)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2947 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2947
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
سواری پر سوار ہو کر طواف کرنا درست ہے لہٰذااگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ڈولی پر یا پہیوں والی کرسی پر طواف کرے تو طواف درست ہے۔
(2)
طواف کے دوران میں اگر حجر اسود کو ہاتھ لگانا مشکل ہو تو چھڑی وغیرہ لگا کر اسے بوسہ دے دیا جائے تو درست ہے۔
ورنہ اشارہ کرلینا کافی ہے۔
(3)
محجن اس عصا یا چھڑی کو کہتے ہیں جس کا ایک سرا مڑا ہوا ہوتا ہے۔
(4)
جاندار چیز کا بت توڑ کر پھینک دینا چاہیے اور تصویر مٹا دینی چاہیے۔
رسول اللہﷺ نے کعبہ کی دیواروں پر نقش تصاویر کو مٹانے کا حکم دیا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2947