حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ، وَعَلَى وَسَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ، رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ، فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ، آكِلُ الرِّبَا".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1143
1143. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جو قرآن پڑھتا تھا اور اسے یاد نہ رکھتا تھا، نیز وہ فرض نماز کے وقت سویا رہتا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1143]
حدیث حاشیہ:
یعنی عشاءکی نماز نہ پڑھتا نہ فجر کے لیے اٹھتا حالانکہ اس نے قرآن پڑھا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کو بھلا بیٹھا۔
آج دوزخ میں اس کو یہ سزا مل رہی ہے۔
یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1143
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4674
4674. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک ایسے شہر کی طرف لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن انتہائی خوبصورت کہ تو نے ایسا حسن کبھی نہ دیکھا ہو گا اور آدھا بدن نہایت بدصورت جو تو نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان دونوں نے ان سے کہا: جاؤ اور اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ نہر میں گھس گئے۔ پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور وہ انتہائی خوبصورت ہو گئے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا: یہ "جنت عدن" ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے اور جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا تھا کہ ان کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت تھا اور آدھا نہایت بدصورت تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے برے ملے جلے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں معاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4674]
حدیث حاشیہ:
حکم کے لحاظ سے آیت شریفہ قیامت تک ہر اس مسلمان کو شامل ہے جس کے اعمال نیک و بد ایسے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ پاک اپنے فضل سے بخش دے گا۔
اس کے وعدہ (إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي)
کا تقا ضا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4674
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6096
6096. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس (گزشتہ رات خواب میں) دو آدمی آئے۔ انہوں نے کہا: جسے آپ نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے، وہ بہت جھوٹ بکنے والاتھا۔ اس کی جھوٹی باتیں اس حد تک نقل کی جاتیں کہ پوری دنیا میں پھیل جاتی تھیں۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6096]
حدیث حاشیہ:
جھوٹے مسئلہ بنانے والے، بدعات محدثات کو رواج دینے والے، جھوٹی روایات بیان کرنے والے نام نہاد علماء وخطباء سب اس وعید شدید کے مصداق ہو سکتے ہیں۔
إلا من عصمه اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6096
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7047
7047. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بکثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے۔ ”کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟“ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کو بیان کرتا۔ آپ ﷺ نے ایک صبح فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے،انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا:(ہمارے ساتھ) چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سر توڑ دیتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کےواپس آنے سے پہلے پہلے دوسرے کا سر صحیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا ور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آےی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ! کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7047]
حدیث حاشیہ:
نبیوں کے خواب بھی وحی کا حکم رکھتے ہیں۔
اس عظیم خواب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے دوزخیوں کے عذاب کے نظارے دکھلائے گئے۔
پہلا شخص قرآن شریف پڑھا ہوا حافظ ‘ قاری مولوی تھا جو نماز کی ادائیگی میں مستعد نہیں تھا۔
دوسرا شخص جھوٹی باتیں پھیلانے والا ‘ افاہیں اڑانے والا ‘ جھوٹی احادیث بیان کرنے والا تھا۔
تیسرے زنا کار مرد اور عورتیں تھیں جو ایک تنور کی شکل میں دوزخ ک عذاب میں گرفتار تھے۔
خون اور پےپ کی نہر میں غوطہ لگانے والا ‘ سود بیاج کھانے والا انسان تھا۔
بد صورت انسان دوزخ کی آگ کو بھڑ کانے والا دوزخ کا داروغہ تھا۔
عظیم طویل بزرگ ترین انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن کے ارد گرد معصوم بچے بچیاں تھیں جو بچپن ہی میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ سب حضرت سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام کے زیر سایہ جنت میں کھیلتے پلتے ہیں۔
یہ ساری حدیث بڑے ہی غور سے مطالعہ کے قابل ہے۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنے کی تو فیق بخشے۔
مشرکین اور کفار کے معصوم بچوں کے بارے میں اختلاف ہے مگر بہتر ہے کہ اس بارے میں سکوت اختیار کر کے معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا جائے ایسے جزوی اختلاف کو بھول جانا آج وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
اس حدیث پر پارہ نمبر28کا اختتام ہو جاتا ہے۔
سارا پارہ ہم مضامین پر مشتمل ہے جن کی پوری تفاصیل کے لئے دفاتر در کار ہیں جن میں سیاسی ‘ اخلاقی ‘ سماجی ‘ مذہبی ‘ فقہی بہت سے مضامین شامل ہیں۔
مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اونچے پایہ کے لائق ترین انسانیت کی پاکیزہ مجلس ہے جس میں انسانیت کے اہم مسائل کا تذکرہ مختلف عنوانات سے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔
آخر میں خوابوں کی تعبیرات کے مسائل ہیں جو انسان کی روحانی زندگی سے بہت زیادہ تعلقات رکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں کتنے انسانوں کے ایسے حالات ملتے ہیں کہ محض خواب کی بنا پر ان کی دنیا عظیم ترین حالات میں تبدیل ہو گئی اور یہ چیز کچھ اہل اسلام ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اغیار میں بھی خوابوں کی دنیا مسلم ہے یہاں جو تعبیرات بیان کی گئی وہ سب حقائق ہیں جن کی صحت میں ایک ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی کسی مومن مرد وعورت کے لئے گنجائش نہیں ہے۔
یا اللہ:
آج ا س پارہ اٹھائیس کی تسوید سے فراغت حاصل کررہا ہوں اس میں جہاں بھی قلم لغزش کھا گئی ہو اورکوئی لفظ کوئی جملہ کوئی مسئلہ تیری اور تیرے حبیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف قلم پر آگیا ہو نہایت عاجزی وانکساری سے تیرے دربار عالیہ میں اس کی معافی کے لیے درخواست پیش کرتا ہوں۔
ایک نہایت عاجز کمزور مریض گنہگار تیرا حقیر ترین بندہ ہوں جس سے قدم قدم لغزشوں کا امکان ہے۔
اس لیے میرے پروردگار تو اس غلطی کو معاف فرمادے اور تیرے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے اس عظیم پاکیزہ ذخیرے کی اس خدمت کو قبول فرما کر قبول عام عطا کردے اور اسے نہ صرف میرے لیے بلکہ میرے جملہ معزز شائقین اور کاتبین کے لیے ماں باپ اور اہل وعیال کے لیے اور میرے سارے معزز معاونین کرام کے لیے اسے ذخیرہ آخرت اور صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرما کر اسے تمام شائقین کرام کے لئے ذریعہ سعادت دارین بنائیو۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین! صل وسلم علی حبیبک سید المرسلین علیٰ آلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7047
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2791
2791. حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے آج رات دو آدمیوں کودیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے ایک درخت پر لے گئے۔ پھر انہوں نے مجھے ایسے مکان میں داخل کیاجو بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے اس عمدہ اور خوبصورت مکان آج تک نہیں دیکھا۔ انھوں نے مجھے کہاکہ یہ مکان اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2791]
حدیث حاشیہ:
مفصل طور پر یہ حدیث کتاب الجنائز میں گزر چکی ہے۔
دو شخصوں سے مراد حضرت جبرائیل و میکائیل ؑ ہیں جو پہلے آپ کو بیت المقدس لے گئے تھے‘ بعد میں آسمانوں کی سیر کرائی اور جنت و دوزخ کے بہت سے مناظر آپ ﷺ کو دکھلائے۔
جسمانی معراج کا واقعہ الگ ہے جو بالکل حق اور حقیقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2791
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3236
3236. حضرت سمرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے آج رات دو آدمی دیکھے جو میرے پاس آئے۔ انھوں نے (مجھ سے) کہا: جو شخص آگ روشن کر رہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ میں جبرئیل ہوں اور یہ حضرت میکائیل ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3236]
حدیث حاشیہ:
یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جو پارہ نمبرچھ میں گزرچکی ہے۔
یہاں اس سے فرشتوں کا وجود ثابت کرنا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3236
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1143
1143. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جو قرآن پڑھتا تھا اور اسے یاد نہ رکھتا تھا، نیز وہ فرض نماز کے وقت سویا رہتا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1143]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کو امام بخاری ؒ نے تفصیل سے کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1385)
اس میں یہ الفاظ ہیں کہ خواب میں جس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت دی لیکن اس نے رات کے وقت اسے نہ پڑھا اور دن کے وقت اس پر عمل نہ کیا۔
(2)
اس روایت سے بعض حضرات نے نماز تہجد کے واجب ہونے پر دلیل لی ہے۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت سے ثابت کیا ہے کہ اس سے مراد فرض نماز ہے، نماز تہجد کا وجوب اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 32/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1143
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1386
1386. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ جب نماز(فجر) سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے فرماتے:”تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟“ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھاہوتا تو وہ بیان کردیتا،پھر جو کچھ اللہ چاہتا آپ اس کی تعبیر بیان کرتے، چنانچہ اسی طرح ایک دن آپ نے ہم سے پوچھا:”کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟“ ہم نے عرض کیا:نہیں آپ نے فرمایا:”مگر میں نے آج رات دو آدمیوں کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مقدس زمین پر لے گئے۔ وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی بیٹھا اور دوسرا کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا ہے جسے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں داخل کرتا ہے جو اس طرف کوچیرتا ہوا،اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس کے دوسرے جبڑے میں بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ اس عرصے میں پہلاجبڑا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دوبارہ ایسے ہی کر دیتا ہے۔ میں نےپوچھا:یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1386]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث پر باب بلا عنوان ہے، گویا عنوان سابق کا تکملہ اور تتمہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ لوگ مشرک ہوں یا مومن ان کی نابالغ اولاد جنت میں ہو گی، کیونکہ اس حدیث میں فرشتوں نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد ہے۔
لوگوں کی اولاد کا لفظ عام ہے جو مشرکین کی اولاد کو بھی شامل ہے۔
اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس روایت کو كتاب التعبير میں بایں الفاظ بیان کیا ہے:
”وہ بچے جو آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے گرد دیکھے تھے، وہ تھے جنہیں فطرت پر موت آئی تھی۔
“ صحابہ میں سے کسی نے کہا اللہ کے رسول! مشرکین کی اولاد بھی، آپ نے فرمایا:
”مشرکین کی اولاد بھی ان میں شامل ہے۔
“ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7047)
اس روایت میں صراحت ہے کہ مشرکین کی وہ اولاد جو بلوغ سے پہلے مر گئی، ان کی موت فطرت پر تھی اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا تھا۔
اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مشرکین کے بچے بھی مسلمانوں کے بچوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی تائید میں چند ایک روایات بھی پیش کی ہیں۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اولاد آدم میں سے جو بے خبر ہیں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کر لیا ہے۔
“ (مسند أبي یعلیٰ: 397/3، رقم: 4087، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت)
روایت میں وضاحت ہے کہ ”بےخبر“ سے مراد معصوم بچے ہیں۔
خنساء بنت معاویہ اپنی پھوپھی سے بیان کرتی ہیں، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جنت میں کون ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا:
”انبیاء، شہداء اور نومولود بچے جنت میں ہوں گے۔
“ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2521)
ان دونوں احادیث کی اسناد حسن ہیں۔
(فتح الباري: 312/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1386
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2791
2791. حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے آج رات دو آدمیوں کودیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے ایک درخت پر لے گئے۔ پھر انہوں نے مجھے ایسے مکان میں داخل کیاجو بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے اس عمدہ اور خوبصورت مکان آج تک نہیں دیکھا۔ انھوں نے مجھے کہاکہ یہ مکان اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2791]
حدیث حاشیہ:
مفصل حدیث پہلے گزرچکی ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث 1386)
اس حدیث میں ہے کہ آنے والے دو آدمی حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے اور یہ مناظر آپ نے خواب میں دیکھے۔
جسمانی معراج کا واقعہ اس کے علاوہ ہے جو عالم بیداری میں ہوا۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے (أَوْسَطُ الْجَنَّةِ)
کی تفسیر بیان کی ہے کہ اس سے مراد جنت کا درمیانی درجہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ ہے۔
(فتح الباري: 17/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2791
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3236
3236. حضرت سمرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے آج رات دو آدمی دیکھے جو میرے پاس آئے۔ انھوں نے (مجھ سے) کہا: جو شخص آگ روشن کر رہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ میں جبرئیل ہوں اور یہ حضرت میکائیل ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3236]
حدیث حاشیہ:
1۔
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا آخری حصہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے بحالت خواب مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو سنگین سزاؤں سے دوچار ہوتے دیکھا۔
اس خواب میں آپ نے ایک آدمی کو آگ روشن کرتے دیکھا۔
اس حدیث میں اس آدمی کے متعلق نشاندہی کی گئی کہ وہ جہنم کا نگران (مالک)
فرشتہ ہے۔
اس خواب کا آغاز اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میرے پاس دوآدمی آئے۔
وہ میراہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدس لے گئے۔
“ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ دوآدمی حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے۔
اس طویل حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الجنائز (حدیث: 1386)
میں بیان کیاہے۔
2۔
اس مقام پر یہ بتانا مقصود ہے کہ فرشتے اپنا وجود رکھتے ہیں اور وہ اللہ کی مخلوق ہیں جنھیں مختلف صورتیں اختیار کرلینے کی سہولت ہے۔
اسے ان لوگوں کی تردیدہوتی ہے۔
جوفرشتوں کو "عقول مجردہ" سے تعبیرکرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3236
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3354
3354. حضرت سمرہ بن جندب ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آج رات میرے پاس دو آدمی آئے (اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔) پھر ہم ایک آدمی کے پاس آئےجس کا قد بہت لمبا تھا۔ میں اس کے دراز قد ہونے کی وجہ سے اس کا سر نہیں دیکھ سکتا تھا وہ حضرت ابراہیم ؑ تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3354]
حدیث حاشیہ:
1۔
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب التعبیر (حدیث: 7047)
میں بیان کیا ہے۔
اس میں ہے کہ اس طویل القامت آدمی کے اردگرد بہت سے بچےتھے۔
ان کے متعلق بتایا گیا کہ یہ وہ بچے ہیں جو فطرت اسلام پر فوت ہوئے ہیں۔
اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کےطویل القامت ہونے سے مراد ان کا عالی مرتبہ ہونا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے ان کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث بیان کی ہے۔
3۔
اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ شکل وصورت اوراخلاق و سیرت میں حضرت ابراہیم ؑ سے ملتے جلتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3354
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4674
4674. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک ایسے شہر کی طرف لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن انتہائی خوبصورت کہ تو نے ایسا حسن کبھی نہ دیکھا ہو گا اور آدھا بدن نہایت بدصورت جو تو نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان دونوں نے ان سے کہا: جاؤ اور اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ نہر میں گھس گئے۔ پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور وہ انتہائی خوبصورت ہو گئے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا: یہ "جنت عدن" ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے اور جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا تھا کہ ان کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت تھا اور آدھا نہایت بدصورت تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے برے ملے جلے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں معاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4674]
حدیث حاشیہ:
1۔
شان نزول کے اعتبار سے مذکورہ آیت خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر اس مسلمان کو شامل ہے جس کے اعمال نیک اور بد دونوں قسم کے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اور انھیں پروانہ مغفرت عطا فرمائے گا کیونکہ اس ذات کریم کا وعدہ ہے:
”اور میری رحمت تمام اشیاء پرمحیط ہے۔
“ (فتح الباري: 432/8)
وہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو معاف کردے گا جن کے اعمال بُرے اچھے ملے جلے ہوں گے۔
2۔
دوسری روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو دوشخص ملے وہ اللہ کے فرشتے حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے۔
(الأعراف: 156/7)
یہ روایت پہلے مفصل طور پر گزر چکی ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3236)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4674
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6096
6096. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس (گزشتہ رات خواب میں) دو آدمی آئے۔ انہوں نے کہا: جسے آپ نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے، وہ بہت جھوٹ بکنے والاتھا۔ اس کی جھوٹی باتیں اس حد تک نقل کی جاتیں کہ پوری دنیا میں پھیل جاتی تھیں۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6096]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث ایک لمبے خواب کا حصہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا تھا، جس میں قیامت کا دن مجرموں کو دی جانے والی سزاؤں کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔
کذاب انسان کو ملنے والی سزا اس طرح تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جبکہ دوسرا آدمی کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کی کنڈی تھی جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں داخل کرتا پھر اسے چیرتا ہوا اس کی گدی تک لے جاتا، اس طرح اس کے دوسرے جبڑے سے کرتا پھر پہلا جبڑا صحیح ہو جاتا، قیامت تک اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا رہے گا۔
(صحیح البخاري،الجنائز، حدیث: 1386) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس شخص کو منہ میں عذاب دیا جائے گا کیونکہ اس کے جرم کا محل اس کا منہ تھا، وہ اس کے ذریعے سے جھوٹ بولا کرتا تھا۔
پہلی حدیث میں جھوٹے انسان کے انجام کو بیان کیا گیا تھا اور اس حدیث میں اس انجام کی تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
(فتح الباري: 625/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6096
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7047
7047. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بکثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے۔ ”کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟“ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کو بیان کرتا۔ آپ ﷺ نے ایک صبح فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے،انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا:(ہمارے ساتھ) چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سر توڑ دیتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کےواپس آنے سے پہلے پہلے دوسرے کا سر صحیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا ور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آےی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ! کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7047]
حدیث حاشیہ: 1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب بہت سے عجیب وغریب حقائق پر مشتمل ہے اور انبیاء علیہ السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
اس میں چار قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو دی جانے والی سنگین اور ہولناک سزائیں بیان ہوئی ہیں جن میں ہمارے لیے بہت سا عبرت کا سامان ہے۔
ان جرم پیشہ لوگوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
پہلا شخص قرآن کریم کا عالم اور قاری جو نماز کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں تھا بلکہ غفلت وسستی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سوتے ہوئے ضائع کردیتا تھا۔
۔
دوسرا شخص جھوٹی باتیں پھیلانے والا،افواہیں اڑانے والا اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والا تھا۔
۔
تیسرے زناکار عورتیں اور زنا کار مرد تھے جو ایک تنور میں جہنم کی سزا بھگت رہے تھے۔
۔
خون اور پیپ کی نہر میں غوطے لگانے والا اور منہ پر زناٹے پتھر کھانے والا سودخورتھا۔
یہ حدیث بڑے ہی غور سے مطالعے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق دے۔
2۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خوابوں کی تعبیر طلوع آفتاب کے بعد کرنی چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ جب نماز فجر پڑھ لیتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے خواب سنتے یا خود کوئی خواب بیان کرتے کیونکہ اس وقت خواب کانقشہ ذہن میں تازہ ہوتا ہے۔
اور تعبیر کرنے والا بھی خالی ذہن ہوتا ہے،پھر اگرخواب دیکھنے والے کو خبردار کرنا ہوتو یہ مناسب ہے کہ وہ آئندہ تمام اوقات میں محتاط رہے۔
3۔
اس مناسبت سے ہم ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علم تعبیر سے واقفیت حاصل کریں اور اگر وہ فن تعبیر سے واقف ہیں تو صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے خواب سنیں اور ان کی مناسب تعبیر کریں۔
علم تعبیر لوگوں کو نیکی کی طرف بلانے اور بُرائی سے روکنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے بشرط یہ کہ ہم لوگ خواب کی تعبیر کے تمام آداب وقواعد سے واقف ہوں۔
بہرحال اس مسنون عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7047