حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ، وَفِيهِ، يَقُولُ شَاعِرُهُمْ: فَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2845
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ شعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے۔ (صحيح البخاري، الحرث والمزارعة، باب قطع الشحر والنخل، حديث: 2326)
(2)
علامہ وحید الزمان نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا شعر کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
بنی لؤی کے عمائد پہ ہوگیا آسان۔
لگی ہوآگ بویرہ میں ہر طرف سوزاں
(3)
کسی ضرورت کے موقع پر پھل دار یا سایہ دار درخت کو کاٹنا جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2845
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» ”کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا“ (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2615
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی ”تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے“ (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔
(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2844
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» ”(مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے“ (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔
2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1552
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3302
´سورۃ الحشر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» ”جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے“ (الحشر: ۵)، نازل فرمائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3302]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (وسالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا،
اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر: 5)
2؎:
یہ غزوئہ بنونضیرکا واقعہ ہے،
جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبیﷺنے بنونضیرکے بعض کھجورکے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا،
اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھاکہ دیکھومحمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں،
بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3302
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4552
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جو بویرہ نامی نخلستان میں تھے، جلوائے اور کٹوا دئیے، قتیبہ اور ابن رمح کی روایت میں یہ اضافہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، ”جو کھجوریں تم نے کاٹیں یا ان کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا، تاکہ فاسقوں کو رسوا کرے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4552]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہودی قبائل جو مدینہ میں رہتے تھے وہ تین تھے،
بنو قریظہ،
بنو نضیر اور بنو قینقاع،
ان قبائل کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ تھا کہ وہ آپﷺ سے جنگ نہیں لڑیں گے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کا تعاون کریں گے،
سب سے پہلے بنو قینقاع نے عہد شکنی کی اور ان کو عبداللہ بن ابی کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا اور ان کو جنگ بدر کے بعد شوال میں،
مدینہ سے نکال دیا گیا،
ان کے بعد بنو نضیر جن کا لیڈر حی بن اخطب نے بدعہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کی سازش تیار کی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حملہ کیا تو وہ قلعہ بند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا اور وہ قلعہ کی فصیل سے تیر اور پتھر برسانے لگے اور کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے،
اس سے معلوم ہوا،
جنگی حکمت اور جنگی ضرورت و مصلحت کے تحت دشمن کے درختوں کو کاٹ کر جلانا اور کاٹنا جائز ہے،
ائمہ اربعہ اور فقہائے اسلام کی اکثریت کا یہی نظریہ ہے،
البتہ بلا ضرورت و مصلحت محض کھیل و تماشے کے طور پر یہ کام درست نہیں ہے،
نہ بگاڑ و فساد کی نیت سے ان کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4552
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3021
3021. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کے نخلستان جلا دیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3021]
حدیث حاشیہ:
حالات جنگ مختلف ہوتے ہیں۔
بعض دفعہ جنگی ضروریات کے تحت دشمنوں کے کھیتوں اور باغات کو بھی جلانا پڑتا ہے۔
ورنہ ویسے عام حالات میں کھیتوں اور باغوں کو جلانا بہتر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3021
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2326
2326. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2326]
حدیث حاشیہ:
بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔
اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔
بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔
ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔
کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت ﷺ سے عہد شکنی کرائی۔
بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔
جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔
کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔
بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔
جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔
جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔
بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2326
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4032
4032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو آگ لگائی تو اس کے متعلق حسان بن ثابت ؓ نے کہا: بنو لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ کر جل رہا ہے۔ ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4032]
حدیث حاشیہ:
بویرہ بنو نضیر کے باغ کو کہتے تھے جو مدینہ کے قریب واقع تھا۔
بنی لوی قریش کے لوگوں کو کہتے ہیں۔
ان میں اور بنی نضیر میں عہد و پیمان تھا۔
حضرت حسان ؓ کا مطلب قریش کی ہجو کرنا ہے ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے اور وہ قریش ان کی کچھ مدد نہ کر سکے۔
جوابی اشعار میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بد دعا دی۔
یعنی خدا کرے تمہارے شہر میں ہمیشہ چاروں طرف آگ جلتی رہے۔
ابو سفیان کی بد دعا مردود ہو گئی اور الحمد للہ مدینہ منورہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے۔
مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا اردو ترجمہ یوں منظوم کیا ہے۔
حضرت حسان کے شعر کا ترجمہ:
بنی لوی کے شریفوں پہ ہوگیا آساں لگی ہو آگ بویرہ میں سب طرف ویراں ابو سفیان بن حارث کے اشعار کا، ترجمہ:
خدا کرے کہ ہمیشہ رہے وہاں یہ حال مدینہ کے چاروں طرف رہے آتش سوزاں یہ جان لو گے تم اب عنقریب کون ہم میں رہے گا بچا کس کا ملک اٹھا ئے گا نقصان یہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو اور ان کے شہر مدینہ کوبد دعا دی تھی جو مردود ہوگئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4032
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4884
4884. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کے درخت جلا دیے تھے اور کچھ کاٹ ڈالے تھے۔ یہ درخت مقام بُویرہ میں تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹ دیا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا یہ دونوں کام اللہ کے حکم کے مطابق تھے تاکہ اللہ تعالٰی نافرمانوں کو ذلیل کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4884]
حدیث حاشیہ:
یہود مدینہ کی حد سے زیادہ شرارتوں اور غداریوں کی بنا پر ان کے خلاف ایسا سخت قدم اٹھایا گیا ورنہ عام طور پر مواقع جنگ میں ایسا کرنا مناسب نہیں ہے ہاں اگر امام ایسی ضرورت محسوس کرے تو اسلام میں اس کی بھی اجازت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4884
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2326
2326. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2326]
حدیث حاشیہ:
(1)
بنو لؤی سے مراد قریش کے اکابر ہیں۔
بنو نضیر نے عین موقع پر غداری کی تھی، اس لیے جنگی مصلحت کے پیش نظر ان کے پھل دار درختوں کو کاٹا گیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔
اگرچہ بنو لؤی اور بنو نضیر میں معاہدہ تھا کہ مصیبت کے وقت وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے لیکن اس مصیبت میں بنو لؤی ان کی کچھ مدد نہ کر سکے بلکہ غداری کی وجہ سے سزا کے طور پر خود بنو لؤی نے ان کے باغات جلائے اور کھجوروں کے درخت کاٹے۔
یہ کام ان کے لیے بالکل آسان تھا کیونکہ وہاں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں تھا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب دشمن کے درخت کاٹنے میں مصلحت ہو تو ایسے حالات میں کھجوروں اور دوسرے پھل دار درختوں کو کاٹنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2326
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3021
3021. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کے نخلستان جلا دیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3021]
حدیث حاشیہ:
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ دشمن کے شہروں کو آگ لگانا اور ان کے گھروں کو برباد کرنا جائز ہے، لیکن امام اوزاعی ؒ، ابولیث اور ابوداؤد ؒ نے اسے مکروہ خیال کیا ہے ان کا استدلال حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی ایک وصیت ہے جوانھوں نے اپنے لشکر کو روانگی کے وقت فرمائی تھی کہ تم نے ایسا کام نہیں کرنا۔
امام طبری ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ نہی قصد و ارادے پرمحمول ہے لیکن قتال کے وقت اگرحاکم مجبور ہوجائے کہ اس کے بغیر علاقہ فتح نہ ہوتو ایسا کرناجائزہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 187/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3021
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4031
4031. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے درخت جلائے اور کچھ کاٹ دیے جو بویرہ مقام میں تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”جو درخت تم نے کاٹے ہیں یا انہیں ان کے تنوں پر قائم رہنے دیا ہے یہ سب اللہ کے حکم ہی سے تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4031]
حدیث حاشیہ:
1۔
مدینے کے قریب بنونضیر کا ایک باغ تھا جسے بویرہ کہتے تھے۔
اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے جب مسلمانوں نے بنونضیر کامحاصرہ کرنا چاہاتو یہ درخت کام میں رکاوٹ بن رہے تھے، چنانچہ جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے انھیں کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انھیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے راہ صاف کرلی گئی تو اس پرمخالفین نے ایک شور برپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد في الأرض کا ارتکاب کررہے ہیں، حالانکہ ان کا اصلاح في الأرض کا دعویٰ ہے۔
اس آیت میں ان کے پروپیگنڈے کا جواب دیا گیا ہے۔
2۔
چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکورنہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے وحی خفی کہا جاتا ہے، جو احادیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔
3۔
دوسرامسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرجنگی ضرورت کے لیے کوئی تخریبی کاروائی کرنی پڑے تو وہ فساد في الأرض کی تعریف میں نہیں آتی۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4031
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4032
4032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو آگ لگائی تو اس کے متعلق حسان بن ثابت ؓ نے کہا: بنو لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ کر جل رہا ہے۔ ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4032]
حدیث حاشیہ:
1۔
بنولؤی قریش کے لوگوں کوکہتے ہیں۔
ان میں اور بنونضیر میں عہد وپیمان تھا۔
حضرت حسان ؓ انھیں عاردلاتے ہیں اور ان کی ہجو کرتے ہیں کہ وہ بنونضیر کی کوئی مدد نہ کرسکے۔
ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے وہاں کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔
ابوسفیان بن حارث اس وقت مسلمان نہ تھے۔
ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آگ کا پھیلنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے گا۔
کیونکہ ہماری ارض مکہ تو بہت دور ہے، البتہ اس آگ کا پھیلاؤ تمھیں نقصان دے گا کہ تمہارے گھر ہی اس آگ میں جلیں گے۔
ہمارے گھروں تک یہ آگ نہیں پہنچے گی۔
ابوسفیان کی یہ بددعا مردود ہوگئی کیونکہ مدینہ طیبہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے۔
2۔
بہرحال بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنونضیر کو بھی مدینہ سے رسواکرکے نکالاگیا۔
رہے بنوقریظہ توان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورہ احزاب (آیت: 26)
میں بیان ہوئی ہے، جس کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4032
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4884
4884. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کے درخت جلا دیے تھے اور کچھ کاٹ ڈالے تھے۔ یہ درخت مقام بُویرہ میں تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹ دیا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا یہ دونوں کام اللہ کے حکم کے مطابق تھے تاکہ اللہ تعالٰی نافرمانوں کو ذلیل کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4884]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا، مگر بنو نضیر کی مسلسل بد عہدیوں کی وجہ سے ان کا استحصال ضروری تھا، لہذا اس خاص موقع پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دی۔
2۔
واقعہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے گرد بنو نضیر کا ایک بہت ہی خوبصورت باغ تھا جسے بویرہ کہتے تھے۔
اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔
جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو انھوں نے باغ کو بطور ڈھال استعمال کیا، اس لیے جو درخت اس کام کے لیے رکاوٹ بن رہے تھے مسلمانوں نے انھیں کاٹ ڈالا اورجہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انھیں آگ لگا کر محاصرے کے لیے راہ صاف کرلی۔
جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس وقت حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شعر پڑھا:
”بنو لئوی کے سرداروں (مشرکینِ مکہ)
پر یہ بات گراں گزری کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔
“3۔
جب راستہ صاف کرنے کے لیے مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے اور انھیں آگ لگائی تو مخالفین نے ایک شور برپا کردیا کہ دیکھو مسلمان ان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا۔
یہ حکم قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے عموماً وحی خفی کہا جاتا ہے۔
4۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی تخریبی کار روائی جنگ کے لیے ناگزیر ہوتو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4884