صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
17. بَابُ مَنْ أَنْظَرَ مُوسِرًا:
باب: جو شخص مالدار کو مہلت دے۔
حدیث نمبر: 2077
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، أَنَّ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَلَقَّتِ الْمَلَائِكَةُ رُوحَ رَجُلٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، قَالُوا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا؟ قَالَ: كُنْتُ آمُرُ فِتْيَانِي أَنْ يُنْظِرُوا وَيَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُوسِرِ، قَالَ: قَالَ: فَتَجَاوَزُوا عَنْهُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: عَنْ رِبْعِيٍّ: كُنْتُ أُيَسِّرُ عَلَى الْمُوسِرِ وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ، وَتَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيٍّ، وَقَالَ أَبُو عَوَانَةَ: عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيٍّ أُنْظِرُ الْمُوسِرَ وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمُعْسِرِ، وَقَالَ نُعَيْمُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ: عَنْ رِبْعِيٍّ، فَأَقْبَلُ مِنَ الْمُوسِرِ وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمُعْسِرِ.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا اور ان سے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی اور ابومالک نے ربعی سے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے ہیں ”کھاتے کماتے کے ساتھ (اپنا حق لیتے وقت) نرم معاملہ کرتا تھا اور تنگ حال مقروض کو مہلت دیتا تھا۔ اس کی متابعت شعبہ نے کی ہے۔ ان سے عبدالملک نے اور ان سے ربعی نے بیان کیا، ابوعوانہ نے کہا کہ ان سے عبدالملک نے ربعی سے بیان کیا کہ (اس روح نے یہ الفاظ کہے تھے) میں کھاتے کماتے کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ حال والے مقروض سے درگزر کرتا تھا اور نعیم بن ابی ہند نے بیان کیا، ان سے ربعی نے (کہ روح نے یہ الفاظ کہے تھے) میں کھاتے کماتے لوگوں کے (جن پر میرا کوئی حق واجب ہوتا) عذر قبول کر لیا کرتا تھا اور تنگ حال والے سے درگزر کر دیتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2077 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2077
حدیث حاشیہ:
یعنی گو قرض دار مالدار ہو مگر اس پر سختی نہ کرے، اگر وہ مہلت چاہے تو مہلت دے۔
مالدار کی تعریف میں اختلاف ہے بعض نے کہا جس کے پاس اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچہ موجود ہو۔
ثوری اور ابن مبارک اور امام احمد اور اسحاق نے کہا جس کے پاس پچاش درہم ہوں۔
اور امام شافعی نے کہا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں کرسکتے۔
کبھی جس کے پاس ایک درہم ہو مالدار کہلا سکتاہے جب وہ اس کے خرچ سے فاضل ہو اور کبھی ہزار رکھ کر بھی آدمی مفلس ہوتا ہے جب کہ اس کا خرچہ زیادہ ہو اور عیال بہت ہوں اور وہ قرض دار رہتا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2077
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2077
حدیث حاشیہ:
(1)
قرض دار اگرچہ مال دار ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی درگزر والا معاملہ کرنا چاہیے۔
اس پر سختی نہ کی جائے۔
اگر وہ مزید مہلت طلب کرے تو خوش دلی کے ساتھ اسے مہلت دی جائے۔
(2)
مال دار کون ہے؟اس کی تعریف میں اختلاف ہے،تاہم حالات وظروف کے پیش نظر بعض اوقات انسان ایک درہم کمانے سے غنی ہوجاتا ہے اور کبھی ہزار درہم رکھنے کے باوجود فقیر رہتا ہے کیونکہ اس کے ہاں اہل وعیال کی کثرت ہوتی ہے۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مہربان ہے۔
وہ معمولی سی نیکی کے عوض بہت بڑے گناہ گار کو معاف کردیتا ہے کیونکہ انسان جب اچھی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ خسارے میں نہیں رہتا۔
(4)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اس کے ظلم کا ساتھ دیتا ہے،اس میں اجرو ثواب کی امید نہیں رکھی جاسکتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اجر ملے گا۔
بہر حال عرف عام میں جو بھی مال دار ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک اور اچھے برتاؤ سے پیش آنا چاہیے۔
(5)
حدیث کے آخر میں (قال فتجا وزواعنه)
کا ترجمہ ہم نے یہ کیا ہے:
"انھوں نے بھی اس سے نرمی اختیار کی۔
"اس لفظ کی دو سورتیں ہیں:
اگر (فتجا وزواعنه)
ہو اور فعل ماضی ہوتو اس کے معنی وہی ہوں گے جو ہم نے کیے ہیں،یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فرشتوں نے اس سے نرمی اختیار کی۔
" اور(فتجا وزواعنه)
اگر فعل امر ہوتو پھر معنی ہوں گے:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:
"تم بھی اس کے ساتھ نرمی کرو۔
"صحیح مسلم وغیرہ سے دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے۔
(صحیح مسلم،المساقاۃ،حدیث: 3993(1560)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2077
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2420
´محتاج قرض دار کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دینے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مر گیا تو اس سے پوچھا گیا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟ تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا، اس نے کہا: میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا، اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2420]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لین دین میں نرمی کرنا اللہ تعالی کی بہت پسند ہے۔
(2)
وفات کےبعد تین مشہور سوالوں (تیرارب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تیرا دین کیاہے؟)
کےعلاوہ بھی بعض معاملات کےبارے میں پوچھا جاتاہے۔
(3)
سکے میں چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ سکے کی معمولی خرابی کونظر انداز کردیتا تھا جب کہ عام لوگ اس کس وجہ سے سکہ قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے جس طرح آج کل گھسا ہواسکہ یا پھٹا ہوا نوٹ قبول کرنے سے انکار کردیا جاتاہے۔
(4)
اللہ کے ہاں حسن اخلاق کی بہت قدروقیمت ہے۔
(5)
مقروض کوقرض کی ادائیگی مزید مہلت دے دینا بہت بڑی نیکی ہے۔
(6)
بعض اوقات ایک نیکی انسان کو نظر میں معمولی ہوتی ہے لیکن وہ بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہے، اس لیے چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2420
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3993
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کا فرشتوں نے استقبال کیا، یعنی اس کی روح قبض کی، اور اس سے پوچھا، کیا تو نے کوئی نیک کام، اچھا عمل کیا ہے؟ اس نے کہا، نہیں، فرشتوں نے کہا، یاد کر، اس نے کہا، میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں کو یہ ہدایت دیتا تھا کہ تنگدست کو مہلت دینا اور مالدار سے وصولی میں آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کرنا، آپﷺ نے فرمایا، اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3993]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معسر تنگدست کو انظار ڈھیل اور مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم جب آسانی اور سہولت کے ساتھ اداکرسکو،
اس وقت اداکردینا،
یا اس سے آسان قسطوں کے ذریعہ قرض وصول کرنا،
اور موسر مالدار سے تجوز یا تجاوز،
درگذراور چشم پوشی سے کام لینا،
اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے قرض وصول کرنے میں درشت اور سخت رویہ اختیارنہ کرنا،
نقد ادائیگی کی سکت وطاقت کے باوجود یا وقت مقررہ کی آمد کے باوجود ایک آدھ دن کی ڈھیل دے دینا،
رقم میں کچھ کمی یا نقص ہو تو اس سے درگزر کرنا،
اور مکمل ادائیگی کا تقاضا چھوڑ دینا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3993