حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:" أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجْنَا لَهُ مَاءً فِي تَوْرٍ مِنْ صُفْرٍ، فَتَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ فَأَقْبَلَ بِهِ وَأَدْبَرَ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:197
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔
اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ جس طشت میں آپ کو وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا وہ پیتل کا تھا۔
امام بخاری ؒ کاموقف یہ ہے کہ وضو کے متعلق برتن کی کوئی پابندی نہیں کہ کس نوعیت کا ہے اور کس قسم کی دھات سے بنا ہوا ہے۔
صرف پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔
اگرچہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ سے اس قسم کے برتنوں میں وضو کرنے کی کراہت مروی ہے۔
2۔
حضرت ابن عمر ؓ پتھر، لکڑی کے برتنوں اورچمڑے کے مشکیزے سے وضو نہیں کرتے تھے، لیکن ہمارے لیے اسوہ حسنہ تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔
آپ سے اس قسم کی پابندی مروی نہیں۔
ممکن ہے حضرت ابن عمر ؓ اس لیے ناپسند کرتے ہوں کہ سونے چاندی کی طرح یہ بھی معدنیات سے ہے، البتہ حافظ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ میں نے ایک روایت بھی دیکھی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اس قسم کے برتنوں میں وضو کرلیتے تھے۔
(شرح ابن بطال: 299/1)
3۔
سونے چاندی کےبرتنوں میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، اس لیے ہمارے اسلاف اس قسم کی قیمتی دھاتوں کے برتنوں میں وضو کو ناپسند کرتے تھے۔
ویسے بھی وضو کے لیے قیمتی برتنوں کے استعمال میں تفاخر کا اظہارہوتا ہے، لہٰذا ان سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
(عمدۃ القاري: 556/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 197
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 32
´مسح کا آغاز سر کے اگلے حصے سے کرنا`
«. . . ومسح رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم برأسه فأقبل بيديه وأدبر . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھ سر کے آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی جانب واپس لے آئے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 32]
� لغوی تشریح:
«أَقْبَلَ بِيَدَيٰهِ وَأَدٰبَرَ» یعنی مسح دونوں ہاتھوں سے سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور پھر سر کے آخری حصے، یعنی پچھلے حصے تک کیا۔ اس کی وضاحت دوسری روایت میں مذکور جملہ: «بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ» کر رہا ہے۔
«قَفَا» سر کے آخری حصے کو کہتے ہیں جو گردن کے پچھلے حصے کے ساتھ ملحق ہے، یعنی گُدّی۔
«رَجَعَ» «رَجُعٌ» سے ماخوذ ہے اور یہاں متعدی استعمال ہوا ہے۔
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسح کا آغاز سر کے اگلے حصے سے کرنا چاہئیے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ اسحاق بن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے۔ لیکن ترمذی میں منقول ایک روایت (جسے امام ترمذی نے حسن کہا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کے مسح کا آغاز پچھلے حصے سے کرنا بھی جائز ہے۔ اس بنا پر بعض اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے۔ وکیع بن جراح بھی انہی لوگوں میں سے ہیں۔ مگر یہ روایت حسن نہیں، اس کا راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل «متكلم فيه» ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے اس پر حافظے کی وجہ سے جرح کی ہے، لہٰذا مسح کا پہلا طریقہ ہی صحیح ہے۔
راوی حدیث:
SR سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ ER آپ انصاری تھے، انصار کے قبیلہ بنی مازن بن نجار کے فرد تھے، اس لیے مازنی کہلائے۔ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ جنگ یمامہ میں وحشی کے ساتھ مل کر مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ 63 ہجری میں معرکہ حرہ کے روز شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔ یہ عبداللہ بن زید وہ نہیں ہیں جنہوں نے خواب میں اذان سنی تھی بلکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں اور وہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ تھے۔ دونوں کے دادا الگ الگ تھے۔ ابن عبدربہ کا ذکر باب الأذان میں آئے گا۔ «إن شاء الله»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 32
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 49
´ایک ہی چلو پانی، منہ اور ناک دونوں کے لئے استعمال`
«. . . في صفة الوضوء او وضوئه صلى الله عليه وآله وسلم-: ثم ادخل صلى الله عليه وآله وسلم يده فمضمض واستنشق من كف واحد، يفعل ذلك ثلاثا . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، ایک ہی چلو سے، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 49]
� لغوی تشریح:
«مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ» «کف» مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ چلو بھر پانی مراد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کرنے کے لیے تھوڑا سا پانی منہ میں ڈالا اور باقی ناک صاف کرنے کے لیے ناک میں چڑھایا۔
فوائد ومسائل:
➊ دونوں احادیث کلی اور ناک میں پانی چڑھانے کے لیے ایک ہی چلو کے کفایت کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔
➋ طلحہ بن مصرف کی حدیث علیحدگی اور تفریق کی مقتضی ہے، لیکن وہ مصرف کے مجہول الحال ہونے اور ضعیف راوی لیث بن ابی سلیم کی بنا پر ضعیف ہے۔
➌ صاحب السبل نے کہا ہے کہ دونوں طرح کی روایات کے بارے میں اقرب الی الصواب بات یہ ہے کہ دونوں میں سے جس پر چاہے عمل کر لے۔ دونوں طرح سنت ہے اگرچہ جمع کرنے کی روایات تعداد میں زیادہ ہیں اور صحیح بھی ہیں تاہم جب تفریق والی روایات ضعیف ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جو روایات صحیح اور متعدد ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 49
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 39
´کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا`
«. . . انه راى النبي صلى الله عليه وآله وسلم ياخذ لاذنيه ماء غير الماء الذي اخذه لراسه . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو پانی سر کے مسح کے لئے لیتے تھے، کانوں کے مسح کے لئے اس سے الگ لیتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 39]
لغوی تشریح:
«وَهُوَ عِنْدَ مُسْلِمٍ» سے مراد ہے کہ یہ الفاظ مسلم کے ہیں، ملاحظہ ہو: [صحيح مسلم، الطهارة، باب آخر فى صفة الوضوء، حديث: 236]
«مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ» کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس سند سے بیہقی نے اس کو بیان کیا ہے مسلم میں بھی اسی سند سے بیان ہوئی ہے۔
«بِمَاءٍ» ”ہمزہ“ تنوین کے ساتھ مجرور ہے۔ گرامر کے اعتبار سے موصوف واقع ہو رہا ہے اور «غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ» اس کی صفت ہے۔ اور «فَضْل» کے معنی ضرورت سے زائد چیز کے ہیں، یعنی ضرورت پوری کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچ جائے۔ پورے جملے کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جو پانی کی تری ہاتھوں کے ساتھ لگی رہی اس سے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ مسح کے لیے نیا پانی لیا۔
«وَهُوَ الْمَحْفُوْظُ» سے مراد یہ ہے کہ مسلم نے جس سیاق اور جن الفاظ سے روایت بیان کی ہے وہ محفوظ ہے۔ اس میں کسی قسم کا کلام نہیں اور بیہقی کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا مشروع ہے، مگر مصنف نے اس کے غیر محفوظ ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
↰ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کانوں کے لیے نیا پانی لینا ثابت نہیں، البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اپنے عمل سے ثابت ہے۔
↰ امام عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفة الأحوذی [1/ 49] میں کہا ہے کہ میں کسی مرفوع صحیح حدیث، جس پر کلام نہ ہو، سے واقف نہیں ہو سکا جس میں یہ بیان ہو کہ آپ نے کانوں کے لیے نیا پانی لیا۔ ہاں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اپنے فعل سے یہ ثابت ہے۔
↰ امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں نافع کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی دونوں انگلیوں سے اپنے کانوں کے لیے نیا پانی لیتے تھے۔ «والله اعلم»
فوائد و مسائل:
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہےکہ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا چاہئیے۔ مگر امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ جب کان سر کے ساتھ شامل ہیں تو پھر سر کے مسح کا پانی ہی کانوں کے لیے کافی ہے۔
بکثرت احادیث صحیحہ اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ بیہقی، ابن خزیمہ اور ابن حبان میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مروی ہے: «فَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وِأُذُنَيْهِ» کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی لیا تو اس سے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا۔ [السنن الكبري للبيهقي الطهاره باب غسل اليدين و ابن خزيمة حديث 148 و ابن حبان حديچ 1086 واللفظ له] «و الله اعلم بالصواب»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 118
´خیرالقرون میں لوگ دین کی باتوں کو اہتمام سے سیکھتے اور سکھاتے تھے`
”. . . یحییٰ مازنی کہتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم سے کہا: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو فرماتے تھے؟ تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، پس آپ نے وضو کے لیے پانی منگایا، اور اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین بار کلی کی ... [سنن ابي داود: 118]
فوائد و مسائل:
➊ خیرالقرون میں لوگ دین کی باتوں کو اہتمام سے سیکھتے اور سکھاتے تھے۔
➋ کچھ اعضائے وضو کو تین بار اور کچھ کو دو بار دھونا بھی جائز ہے۔
➌ مسح کا آسان مسنون طریقہ قابل توجہ ہے، صرف اگلے حصے کا مسح یا چند بالوں کو چھو لینا کافی نہیں۔ بلکہ دونوں ہاتھوں کو سر کے اگلے حصے سے شروع کر کے پچھلے حصے گدی تک اور پھر گدی سے سر کے اگلے حصے تک واپس لے آنا چاہیے، جہاں سے شروع کیا تھا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گدی کے نیچے گردن کے الگ مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”گردن کے مسح کی حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 118
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 119
´کلی اور ناک دونوں کے لیے ایک چلو پانی لیا جائے`
... حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ انہوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین بار ایسا ہی کیا، پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا . . .“ [سنن ابي داود: 119]
فوائد و مسائل:
مسنون اور مستحب یہ ہے کہ کلی اور ناک دونوں کے لیے ایک چلو پانی لیا جائے، اس طرح کہ چلو کا آدھا پانی کلی کے لیے کھینچ لے اور آدھا ناک میں چڑھا دے۔ جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 119
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 120
´سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینا`
... اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اپنے ہاتھ کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے کیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے یہاں تک کہ انہیں صاف کیا... [سنن ابي داود 120]
فوائد و مسائل:
➊ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینا چاہیے۔
➋ اعضائے وضو کو مل کر دھونا اور صاف کرنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 120
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 158
´وضو میں ہر عضو دو دو بار دھونا بھی ثابت ہے`
”. . . وہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اعضاء کو دو دو بار دھویا ... [صحيح البخاري:158]
تشریح:
دو دو بار دھونے سے بھی وضو ہو جاتا ہے یہ بھی سنت ہے مگر تین تین بار دھونا زیادہ افضل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 158
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 185
´پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے`
”. . . پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے... [صحيح البخاري: 185]
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ارشاد [المائدة: 6] میں کوئی حد مقرر نہیں کی کہ آدھے سر یا چوتھائی سر کا مسح کرو۔ جیسے ہاتھوں میں کہنیوں تک اور پیروں میں ٹخنوں تک کی قید موجود ہے تو معلوم ہوا کہ سارے سر کا مسح فرض ہے جب سر پر عمامہ نہ ہو اور اگر عمامہ ہو تو پیشانی سے مسح شروع کر کے عمامہ پر ہاتھ پھیر لینا کافی ہے۔ عمامہ اتارنا ضروری نہیں۔ حدیث کی رو سے یہی مسلک صحیح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 185
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 191
´ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بیان میں`
«. . . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، " أَنَّهُ أَفْرَغَ مِنَ الْإِنَاءِ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ غَسَلَ أَوْ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفَّةٍ وَاحِدَةٍ فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثًا، فَغَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَا أَقْبَلَ وَمَا أَدْبَرَ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " . . . .»
”. . . عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ (وضو کرتے وقت) انہوں نے برتن سے (پہلے) اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انہیں دھویا۔ پھر دھویا۔ (یا یوں کہا کہ) کلی کی اور ناک میں ایک چلو سے پانی ڈالا۔ اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا۔ اگلی جانب اور پچھلی جانب کا اور ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اسی طرح ہوا کرتا تھا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ:: 191]
تشریح:
یہ شک امام بخاری کے استاد شیخ مسدد سے ہوا ہے۔ مسلم کی روایت میں شک نہیں ہے۔ صاف یوں مذکور ہے کہ اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا پھر اسے نکالا اور کلی کی حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 191
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 192
´سر کا مسح ایک بار کرنے کے بیان میں۔`
... (دوسری روایت میں) ہم سے موسیٰ نے، ان سے وہیب نے بیان کیا کہ آپ نے سر کا مسح ایک دفعہ کیا ... [صحيح البخاري: 192]
تشریح:
معلوم ہوا کہ ایک بار تو وضو میں دھوئے جانے والے ہر عضو کا دھونا فرض ہے۔ دو مرتبہ دھونا کافی ہے اور تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔ اسی طرح کلی اور ناک میں پانی ایک چلو سے سنت ہے۔ سر کا مسح ایک بار کرنا چاہئیے، دو بار یا تین بار نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 192
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 199
´طشت سے (پانی لے کر) وضو کرنا`
... ایک دن انہوں نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے بتلائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا۔ اس کو (پہلے) اپنے ہاتھوں پر جھکایا۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈال کر (پانی لیا اور) ایک چلو سے کلی کی اور تین مرتبہ ناک صاف کی۔ پھر اپنے ہاتھوں سے ایک چلو (پانی) لیا اور تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر اپنے سر کا مسح کیا۔ تو (پہلے اپنے ہاتھ) پیچھے لے گئے، پھر آگے کی طرف لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ . . .“ [صحيح البخاري: 199]
تشریح:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر یہاں طشت سے براہ راست وضو کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 199
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 185
185. یحییٰ مازنی سے روایت ہے، ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے پوچھا، اور وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: ہاں۔ چنانچہ انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور ان کو دو مرتبہ دھویا۔ پھر تین مرتبہ کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ بعد ازاں اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا دونوں ہاتھوں سے مسح کیا، ہاتھوں کو آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے۔ مسح سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور اس کے پچھلے حصے تک لے گئے۔ پھر جہاں سے شروع کیا تھا وہاں تک ہاتھوں کو لائے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:185]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ اور امام مالک ؒ کا مسلک یہ ہے کہ پورے سرکا مسح کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ارشاد (المائدۃ: 6)
میں کوئی حد مقرر نہیں کی کہ آدھے سر یا چوتھائی سر کا مسح کرو۔
جیسے ہاتھوں میں کہنیوں تک اور پیروں میں ٹخنوں تک کی قید موجود ہے، تومعلوم ہوا کہ سارے سر کا مسح فرض ہے جب سر پر عمامہ نہ ہو اور اگرعمامہ ہو تو پیشانی سے مسح شروع کرکے عمامہ پر ہاتھ پھیر لینا کافی ہے۔
عمامہ اتارنا ضروری نہیں۔
حدیث کی رو سے یہی مسلک صحیح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 185
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 58
´طریقہ وضو`
... کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ تو سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں، پھر انہوں نے وضو کا پانی منگوایا تو اپنے ہاتھوں پر ڈال کر انہیں دو دفعہ دھویا، پھر تین دفعہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دو دفعہ دھوئے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ سر کا مسح کیا آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، آپ نے سر کا مسح ابتدائی حصے سے شروع کیا پھر اسے گدی تک لے گئے پھر وہاں سے اس مقام تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے... [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 58]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 185، و مسلم 235، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث میں وضو کا طریقہ تفصیل سے مذکور ہے لیکن بعض امور کا ذکر نہیں مثلاً سر کے مسح کے بعد کانوں کا مسح کرنا چاہئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو شہادت والی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالتے (اور ان کے ساتھ دونوں کانوں کے) اندرونی حصوں کا مسح کرتے اور انگوٹھوں کے ساتھ باہر والے حصے پر مسح کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/18 ح173، وسنده صحيح]
◄ یاد رہے کہ سر اور کانوں کے مسح کے بعد اُلٹے ہاتھوں کے ساتھ گردن کے مسح کا کوئی ثبوت کسی حدیث میں نہیں ہے۔
➋ اعضائے وضو کو دو دو دفعہ دھونا اور ایک ایک دفعہ دھونا بھی جائز ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 157، 158] بعض اعضاء کو دو دفعہ اور بعض کو تین دفعہ دھونا بھی جائز ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 186]
➌ بہتر یہ ہے کہ درج بالا حدیث کی روشنی میں ایک ہی چلو سے منہ اور ناک میں پانی ڈالا جائے اور اگر منہ میں علیحدہ اور ناک میں علیحدہ چلو سے پانی ڈالا جائے تو بھی جائز ہے۔ دیکھئے [التاريخ الكبير لابن ابي خيثمه ص588 ح1410، وسنده حسن]
➍ وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی ثابت ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 142، وسنده حسن]
➎ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب [مختصر صحيح نمازِ نبوي ص5 8]
➏ وضو میں داڑھی کا خلال کرنا بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 31 وقال: ”هذا حديث صحيح“ و سنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 401
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 186
´اس بارے میں کہ ٹخنوں تک پاؤں دھونا ضروری ہے `
... پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور سر کا مسح کیا۔ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے، ایک بار۔ پھر ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے ... [صحيح البخاري 186]
تخريج الحديث:
[136۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 39 باب غسل الرجلين إلى الكعبين 186، مسلم 235 أبوداود 100]
لغوی توضیح:
«تَوْر» برتن یا پیالہ یا ہنڈیا جیسی کوئی چیز۔
«اسْتَنْثِرْ» ناک جھاڑا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 136
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 97
´اعضائے وضو دھونے کی حد کا بیان۔`
عمرو بن یحییٰ المازنی کے والد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے پوچھا- وہ ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں اور (عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو کرتے تھے؟ تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے پانی منگایا، اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر انڈیلا، انہیں دو دو بار دھویا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر جس جگہ سے شروع کیا تھا وہیں انہیں لوٹا لائے، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 97]
97۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے پتا چلا کہ اگرچہ أقبل و أدبر کا مفہوم مشترک ہے، یعنی أقبل سے مراد پیچھے سے آگے کی طرف آنا اور أدبر کا مفہوم سر کے اگلے حصے سے پیچھے گدی کی طرف ہاتھوں کو لے جانا ہے۔ لیکن حدیث میں موجود تفصیل «بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ» سے دوسرے مفہوم کی تائید ہوتی ہے، یعنی یہاں (أقبل) سے مراد سر کے اگلے حصے سے گدی کی طرف دونوں ہاتھوں کا لے جانا ہے اور «أدبر» سے مراد پیچھے سے ہاتھوں کو اگلی جانب لانا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے مسح کا عمومی طریقہ یہی تھا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 97
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 98
´سر کے مسح کا طریقہ۔`
یحییٰ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ان کے باپ عمارہ نے) عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے کہا - (وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں! چنانچہ انہوں نے پانی منگایا، اور اپنے دائیں ہاتھ پر انڈیل کر اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے، پھر تین بار کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا، پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر انہیں واپس لے آئے یہاں تک کہ اسی جگہ لوٹا لائے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 98]
98۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں سر کے مسح کا تفصیلی ذکر ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے گا۔ آپ کے وضو کی حدیث میں پورے سر کے مسح ہی کا ذکر ہے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ احناف نے چوتھائی سر (کسی بھی جانب) کے مسح کو کافی کہا ہے مگر دلائل کی رو سے یہ موقف کمزور ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال کہ ”چند بالوں پر بھی مسح ہو جائے تو کافی ہے۔“ لیکن احناف اور شوافع کا موقف ان صریح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 98
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 99
´سر کا مسح کتنی بار کیا جائے؟`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ (جنہیں خواب میں کلمات اذان بتلائے گئے تھے ۱؎) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا، تو اپنا چہرہ تین بار اور اپنے دونوں ہاتھ دو بار دھوئے، اور اپنے دونوں پاؤں دو بار دھوئے، اور دو بار ۲؎ اپنے سر کا مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 99]
99۔ اردو حاشیہ:
➊ خواب میں اذان دکھلائے جانے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ ویسے یہ عبداللہ بن زید اذان والے نہیں جنھیں اذان دکھائی گئی تھی، وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں اور یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں۔ یہاں پر (راویٔ حدیث) سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کی وضاحت خود امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمائی ہے۔ دیکھیے: [سنن النسائي، الاستسقاء، حدیث: 1506، و صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1012]
➋ ”سر کا مسح دو دفعہ کیا۔“ اس سے مراد ایک دفعہ دونوں ہاتھوں کو آگے سے شروع کر کے گدی تک لے جانا اور دوسری دفعہ پیچھے سے اسی طرح آگے لانا ہے۔ اسے دو دفعہ کہیں یا ایک دفعہ، کوئی فرق نہیں کیونکہ ہاتھوں کو اپنی ایک دفعہ ہی لگایا جاتا ہے، اس لیے اسے عام طور پر ایک دفعہ ہی کہا جاتا ہے اور یہی مکمل مسح ہے۔
➌ ہمارے فاضل محقق نے پوری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے طرق کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر حدیث میں وارد الفاظ: «وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ» ”پاؤں دو دفعہ دھوئے اور اپنے سر کا مسح دو دفعہ کیا۔“ کو سفیان بن عیینہ کا شدید وہم قرار دیا ہے کیونکہ وہ ان الفاظ کے بیان کرنے می سخت اضطراب کا شکار تھے، اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کو شاذ قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 109]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 99
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث434
´سر کے مسح کا بیان۔`
یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن مازنی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نانا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری مازنی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، اور وضو کا پانی منگایا، اور اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا، اور دوبار دھویا، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دو دو بار دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ پر رکھے، اور ان کو پیچھے کو لے گئے یعنی سر کے اگلے حصے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 434]
اردو حاشہ:
(1)
زبانی سنے ہوئے مسئلہ کومزید بہتر طور پر سمجھنے کے لیےدوبارہ پوچھنے میں کوئی خرج نہیں۔
(2)
کوئی کام عملی طور پر کرکے دکھانا تعلیم کا ایک مؤثر اور مفید طریقہ ہے جس سے مسئلہ بہتر طور پر سمجھ میں آتا ہےاور زیادہ اچھی طرح یاد رہتا ہے۔
(3)
وضو کے بعد اعضاء کو دو دو بار اور بعض کو تین تین بار دھونا جائز ہے البتہ سر کا مسح ایک ہی بار کرنا چاہیے۔
(4)
سر کے مسح میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے جسے راوی نے اس روایت میں اختصار کے طور پر ترک کردیا ہے جس طرح پاؤں دھونے کی تعداد ذکر نہیں کی۔
حدیث بیان کرنے کا اصل مقصد یہ وضاحت کرنا ہے کہ مسح پورے سر کا ہوتا ہے کچھ سر کا نہیں۔
(5)
ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اس جملے میں مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ یہ دونوں کام کئے۔
یہ مطلب نہیں کہ پہلے ہاتھوں کو پیچھے سے آگے لائےاور بعد میں آگے سے پیچھے لے گئے اس لیے فوراً اس کی وضاحت فرما دی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 434
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث443
´وضو کے باب میں کان سر میں داخل ہے۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وضو کے باب میں) دونوں کان سر میں داخل ہیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 443]
اردو حاشہ:
(1)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر کا مسح کیا جاتا ہےکانون کا بھی کیا جائے۔
یہ چہرے کےساتھ دھونے کے حکم میں شامل نہیں ہیں، اس لیے چہرہ دھوتے وقت کان نہ ھوئے جائیں۔
(2)
جو پانی سر کے مسح کے لیے لیا ہے اسی سے کانوں کا مسح کرلیا جائے یعنی کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی ضروری نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 443
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 28
´ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار آپ نے ایسا کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 28]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا افضل ہے دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بھی احادیث آئی ہیں لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنے کی احادیث زیادہ اور صحیح ترین ہیں،
دونوں صورتیں جائز ہیں،
لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنا زیادہ اچھا ہے،
علامہ محمد بن اسماعیل الأمیرالیمانی ”سبل السلام“ میں فرماتے ہیں:
اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اختیار ہے اور ہر ایک سنت ہے،
گرچہ دونوں کو ایک کلی میں جمع کرنے کی روایات زیادہ ہیں اور صحیح تر ہیں،
واضح رہے کہ اختلاف زیادہ بہتر ہونے میں ہے جائز اور ناجائز کی بات نہیں ہے۔
2؎:
امام شافعی سے اس سلسلہ میں دو قول مروی ہیں ایک تو یہی جسے امام ترمذی نے یہاں نقل کیا ہے اور دوسرا ایک ہی چلو میں دونوں کو جمع کرنے کا اور یہ ان کا مشہور قول ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 28
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 35
´سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کا بیان`
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 35]
اردو حاشہ:
1؎:
مؤلف نے عمرو بن حارث کی روایت کے لیے ”زیادہ صحیح“ کا لفظ اس لیے اختیار کیا ہے کہ ”ابن لہیعہ“ کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے،
اور عبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے،
لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں،
اس لیے ان کی روایت ”عمرو بن حارث“ کی روایت کے مقابلہ میں شاذ ہے اور عمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 35
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 47
´وضو میں بعض اعضاء دو بار دھونے اور بعض تین بار دھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا تو آپ نے اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پیر دو دو بار دھوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 47]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(”وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ“میں ”مَرَّتَيْنِ“ کا لفظ شاذ ہے،
صحیح ابی داود 109)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 47
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:421
421- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا، دونوں بازو دو، دومرتبہ دھوئے، اپنے سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:421]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو کے اعضاء کو دھونے کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 421
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 555
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم انصاریؓ (جسے شرفِ رفاقت حاصل ہے) ان سے کسی نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کا وضو کر کے دکھائیں! تو انھوں نے پانی کا برتن منگوایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں تین دفعہ دھویا، پھر (برتن میں) اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا اور ایک ہتھیلی سے کلی کی اور ناک میں پانی کھینچا۔ یہ کام تین دفعہ کیا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر (برتن میں سے) نکالا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:555]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
أَكْفَأَ مِنْهَا:
اس کو جھکایا،
اس سے پانی ڈالا۔
(2)
اسْتَنْشَقَ:
نشق سے ہے،
جس کا معنی ہے،
سونگھنا،
مقصد ناک میں پانی چڑھانا،
ناک میں پانی ڈالنا۔
(3)
أَقْبَلَ:
آگے سے شروع کیا اور دبر اس کے برعکس ہے۔
یعنی پیچھے سے شروع کیا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا،
آپ ﷺ ایک ہی چلو سے کلی بھی کرتے اورناک میں پانی بھی چڑھاتے تھے اور بہتر طریقہ یہی ہے۔
علماء نے اس کےپانچ طریقے لکھے ہیں:
(1)
ایک چلو لے کر اس سے تین مرتبہ کلی کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے۔
(2)
ایک چلو میں پانی لے اور اس سے تین دفعہ پہلے کلی کرے،
پھر تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔
(3)
تین دفعہ چلو میں پانی لے اور ہر دفعہ کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے۔
(4)
پہلے ایک چلو سے تین دفعہ کلی کرے،
پھر دوسرے چلو سے تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔
(5)
ہر چلو سے صرف ایک کام کرے پہلے تین چلوؤں سے تین دفعہ کلی کرے،
پھر تین چلوؤں سے تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔
اس حدیث سے تیسرا طریقہ ثابت ہوتا ہے،
کہ تین چلوؤں سے دونوں کام یک بار کرے۔
(2)
بعض اعضاء کو دو دفعہ اور بعض کو تین دفعہ دھونا بھی جائز ہے،
آپ نے ہاتھ کہنیوں سمیت دو دفعہ دھوئے،
چہرہ اور صرف ہاتھ شروع میں تین دفعہ ہوئے۔
(3)
سر کے مسح میں ہاتھ (دونوں)
سامنے سے پیچھے کی طرف،
پھر پیچھے سے آگے کی طرف لانا اس بات کی دلیل ہے،
کہ مسح پورے سر کا کیا جائے گا۔
اس کے افضل وبہتر ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے،
فرضیت اور وجوب میں اختلاف ہے۔
(4)
سر کا مسح ایک دفعہ کیا،
اس لیے اس میں تعداد کا ذکر نہیں کیا،
دوسرے اعضاء کے لیے مرتین اور ثلاثا کا ذکر ہے،
اور اس حدیث میں پاؤں کے دھونے میں بھی عدد مذکور نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 555
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 559
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ؓسے روایت ہے: ”کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، آپ نے کلی کی، پھر (ناک میں پانی ڈال کر) جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، اور اپنا دایاں ہاتھ تین مرتبہ اور دوسرا تین مرتبہ، اور سر کا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھ سے بچا ہوا نہیں تھا، (یعنی نئے پانی سے مسح کیا) اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے، حتیٰ کہ ان کو صاف کر لیا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:559]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سر کے مسح کےلیے نیا پانی لینا چاہیے،
اوپر کی حدیث میں بھی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 559
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:158
158. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعضائے وضو کو دو، دو بار دھویا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:158]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن عیینہ نے بیان کیا ہے کہ راوی حدیث ہی عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنھوں نے حدیث اذان کو بیان کیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ وہ عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو حارثہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو مازن سے متعلق ہیں البتہ دونوں خزرجی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
(صحیح البخاري، الإستقاء، حدیث: 1012)
راوی حدیث سے کتب حدیث میں 42 احادیث مروی ہیں جبکہ صاحب اذان سے حدیث اذان کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں۔
(عمدۃ القاري: 356/2)
2۔
اعضاء کا دو، دو مرتبہ دھونا سنت کا دوسرا درجہ ہے اور ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔
اگرچہ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا کلی اور ناک میں تین تین مرتبہ پانی ڈالا اور چہرے کو بھی تین مرتبہ دھویا پھر کلائیوں کو کہنیوں تک دو دو مرتبہ دھویا۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 191)
لہٰذا باب اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ وضو کرتے وقت بعض اعضاء دو، دو مرتبہ اور بعض کو تین، تین دفعہ دھونے کا بیان، لیکن اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ راوی حدیث اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے ایک شاگرد (عباد بن تمیم)
کو ایک، ایک مرتبہ دھونے کا مشاہدہ بیان فرمایا اور دوسرے شاگرد(یحییٰ المازنی)
کو دودو یا تین تین دفعہ دھونے کا ذکر کردیا۔
(عمدۃ القاري: 436/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:185
185. یحییٰ مازنی سے روایت ہے، ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے پوچھا، اور وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: ہاں۔ چنانچہ انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور ان کو دو مرتبہ دھویا۔ پھر تین مرتبہ کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ بعد ازاں اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا دونوں ہاتھوں سے مسح کیا، ہاتھوں کو آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے۔ مسح سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور اس کے پچھلے حصے تک لے گئے۔ پھر جہاں سے شروع کیا تھا وہاں تک ہاتھوں کو لائے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:185]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح فرمایا۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 636(274)
ناصیہ سر کا وہ حصہ ہے جس کے بالوں کا رخ پیشانی کی طرف ہو۔
اس روایت کی بنیاد پر بعض فقہاء نے چوتھائی سر کے مسح کو فرض قراردیا ہے، امام بخاری ؒ کا موقف ان کے خلاف ہے۔
قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی مقدار کے متعلق اجمال تھا جس کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں مذکور ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں اگرچہ ناصیہ پر مسح کرنے کا ذکر ہے لیکن حدیث کے مطابق یہ اس صورت میں ہے جب سر پر پگڑی ہو۔
جتنا حصہ سر کا ننگا ہے اس پر مسح کر کے باقی پگڑی پر کر لیا جائے۔
اس طرح احادیث میں کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ جب پگڑی نہیں ہو گی تو تمام سر کا مسح کرنا ہو گا۔
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے جو فقہاء آیت کریمہ میں ”ب“ کو زائد یا تبعیضیہ قرار دیتے ہیں ان کا موقف بھی درست نہیں، بلکہ یہ ”ب“ اِلصاق کے معنی میں مستعمل ہے۔
2۔
حدیث میں (فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ)
سے مقصود مسح کی کیفیت بیان کرنا ہے اور یہ دو حرکتیں ہیں جن سے مسح کی تکمیل ہوتی ہے، دوبارمسح کرنا نہیں کیونکہ اس روایت میں (اِقبال و اِدبار)
کے ساتھ (مرة واحدة)
کے الفاظ بھی مروی ہیں (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 186)
اس سے معلوم ہوا کہ اقبال وادبار کے ساتھ بھی مسح کو ایک ہی بار سمجھا جاتا تھا۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سامنے کے حصے سے مسح کرتے ہوئے گدی تک دونوں ہاتھ پہنچائے پھر ادھر سے مسح کرتے ہوئے سامنے تک آ جائے تاکہ پوری طرح سارے سر کا مسح ہو جائے۔
ویسے اقبال کے لغوی معنی اگلی طرف آنا اور ادبار کے پچھلی طرف جانا ہیں، لیکن یہ معنی روایت مذکور میں مقصود نہیں کیونکہ اس سے صورت برعکس ہو جاتی ہے جو غیر مقصود ہے۔
در حقیقت راوی نے یہاں ترتیب کی رعایت نہیں کی اور نہ واؤ عطف میں ترتیب ہی ہوتی ہے لیکن صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں (فَاَدبَرَ بِيَدِهِ وَاَقبَلَ)
بھی ہے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 199)
وہ صحیح صورت واقعہ کا نقشہ پیش کرتی ہے اور لغوی معنی کے بھی مطابق ہے لیکن اگر (أَقْبَلَ)
کے معنی کر لیے جائیں سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا (أَدْبَرَ)
اور(پھر)
پیچھے سے ہاتھ آگے لائے تو اس صورت میں ان کا مطلب بھی صحیح واضح ہو جاتا ہے۔
واللہ أعلم 3۔
حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے وضو کے متعلق سوال کرنے والے عمرو بن ابی حسن ہیں، جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اگلے باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جو عمرو بن یحییٰ کے داداہیں جس کی صراحت خود روایت میں موجود ہے مؤطا امام مالک ؒ میں سائل کی تعیین کے متعلق مختلف روایات ہیں جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے پاس تین شخص تھے ایک ابو حسن انصاری دوسرے ان کے بیٹے عمرو بن ابی حسن اور تیسرے ان کے پوتے یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن یہ تینوں حضرات وضوئے نبوی معلوم کرنے کے لیے حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اس کے متعلق سوال عمرو بن ابی حسن نے کیا، اب جہاں سوال کی نسبت عمرو بن ابی حسن کی طرف کی گئی ہے تو یہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن جہاں ان کے والد ابو حسن یا ان کے بھتیجے یحییٰ بن عمارہ کی طرف کی گئی ہے وہاں مجاز پر محمول ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سائل عمرو بن ابی حسن ہیں اور یہ یحییٰ بن عمارہ کے حقیقی چچا اور عمرو بن یحییٰ کے عم الاب ہونے کی حیثیت سے عمرو بن یحییٰ کے مجازی دادا ہیں، اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ بعض حضرات نے عبارت میں (هُوَ)
ضمیر کو عبد اللہ بن زید ؓ کی طرف راجع کیا ہے جو درست نہیں کیونکہ عبد اللہ بن زید حقیقی یا مجازی کسی بھی اعتبار سے عمرو بن یحییٰ کے دادا نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 380/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 185
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:186
186. عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور انہیں نبی ﷺ کا وضو کر کے دکھایا، چنانچہ برتن کو جھکا کر اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ اس سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے صاف کیا۔ یہ سب کام تین چلوؤں سے کیے۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور چہرہ مبارک کو تین بار دھویا۔ بعد ازاں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ ڈالا اور اقبال و ادبار کے ساتھ ایک مرتبہ سر کا مسح کیا۔ اس کے بعد اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:186]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا مسئلہ دو مرتبہ بیان کر چکے ہیں (1)
۔
دونوں پاؤں دھونے چاہییں، قدموں پر مسح نہیں کرنا چاہیے دیکھیے (باب 27) (2)
۔
جوتوں پر مسح کرنے کے بجائے انھیں پہنے ہوئے پاؤں دھونا، دیکھیے(باب 30)
اگر اس کے ساتھ ”ایڑیاں دھونا“ کے عنوان کو شامل کر لیا جائے تو گویا آپ اس مسئلے کو تین مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔
اب صرف آیت کریمہ کی ترتیب کے اعتبار سے اس مسئلے کو یہاں بیان کر رہے ہیں، لیکن تکرار سے بچنے کے لیے اس عنوان کو ” ٹخنوں تک“ کی قید سے مقید کردیا تاکہ دوسرے تراجم سے ممتاز ہو جائے۔
2۔
بعض شارحین نے اس عنوان کو سابق عنوان کا تکملہ قراردیا ہے کہ امام بخاری ؒ اس سے بھی مکمل سر کا مسح ثابت کر رہے ہیں کہ جب (رِجلَين)
جو اعضائے وضو سے ہیں مکمل دھوئے جاتے ہیں تو مسح بھی سارے سر کا ہونا چاہیے۔
وہ اس طرح کہ پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا ثابت ہے اور سر کے ٹخنے کان ہیں، ان کے سمیت سر کا مسح کرنا ہوگا کیونکہ سنن کی جن روایات میں کانوں کو سر میں شامل کیا گیا ہے وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لطیف اسلوب سے آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
3۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ ایک اور تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ قران کریم میں پاؤں دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، یعنی انھیں ٹخنوں تک دھویا جائے۔
(أَرْجُلَكُمْ)
کو منصوب پڑھیں یا مجرور دونوں صورتوں میں پاؤں کا دھونا متعین ہے کیوں کہ لفظ ”إلى“ تحدید کے لیے ہے اور مسح میں تحدید کا کوئی بھی قائل نہیں، لہذا جو لوگ اسے مجرور پڑھنے کی صورت میں پاؤں پر مسح کرنے کے متعلق کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے، نیز عربی زبان میں مسح کا لفظ دھونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اگر اسے مسح کے تحت بھی مان لیا جائے تو بھی انھیں دھونے ہی سے شارع علیہ السلام کا مقصد پورا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک انھیں دھونے ہی کا ہے، خواہ اسے منصوب پڑھیں یا مجرور۔
4۔
پاؤں پر مسح صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب موزے پہنے ہوئے ہوں۔
رسول اللہ ﷺ سے ایسی حالت میں مسح کرنا ثابت ہے، لیکن پاؤں ننگے ہونے کی صورت میں دھونے کے علاوہ اور کوئی صورت متعین نہیں۔
پھر پاؤں کو دھونے سے مسح کا عمل خود بخود ادا ہو جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس مسح کرنے سے غسل کا عمل بھی ادا ہو جائے، اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
5۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالا جا سکتا ہے، نیز سر کا مسح صرف ایک مرتبہ کرنا ہے، اس میں تکرار نہیں ہے۔
(صحیح البخاري، الوضو ء، حدیث: 191۔
192)
6۔
رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق مختلف روایات کتب حدیث میں مروی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ جس کا جو مشاہدہ تھا اس نے بیان کردیا۔
مقصد یہ ہے کہ ان تمام طریقوں سے وضو ہو سکتا ہے۔
اعضاء کا ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے ہے، کہنیاں اور ٹخنے بھی دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔
کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلائیاں دھوئیں تا آنکہ اپنے بازؤں کو دھونے لگے، نیز آپ نے اپنے پاؤں دھوئے تاآنکہ پنڈلی کو دھونا شروع کیا۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579۔
(246)
اس سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ ٹخنے اور کہنیاں دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ”إلیٰ“ بمعنی ”مع“ ہے۔
(فتح الباري: 382/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 186
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:191
191. حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور ان کو دھویا، پھر دھویا۔ یا (یوں کہا کہ) ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار ایسا کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو بار دھویا اور سر پر مسح کیا آگے اور پیچھے دونوں طرف سے۔ اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کہا: رسول اللہ ﷺ اس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:191]
حدیث حاشیہ:
1۔
وضو کرتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی دوصورتیں ہیں:
(1)
۔
ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے۔
اس صورت کو وصل کہتے ہیں۔
2۔
دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیا جائے، اسے فصل کہا جاتا ہے۔
بعض ائمہ کرام کے نزدیک وصل جائز اور فصل افضل ہے، جیساکہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے تحت امام شافعی ؒ کا موقف بیان کیا ہے کہ ان کے نزدیک فصل کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
(سنن الترمذي، الطھارة، حدیث: 28)
امام بخاری ؒ اس عنوان سے یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وصل افضل ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ عمل منقول ہے۔
اس روایت کے بعض طرق میں (من غرفة واحدة)
کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، الطھارة، حدیث: 199)
ان الفاظ کی موجودگی میں اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا کام ایک ہاتھ سے سرانجام دیا، برخلاف چہرے وغیرہ کے کہ ان میں دونوں ہاتھ استعمال ہوئے ہیں۔
یہ توجیہ اس لیے بھی غلط ہے کہ ابوداؤد میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ایک ہی پانی سے ہوتا، چنانچہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
انھوں نے یہ دونوں کام ایک ہی دفعہ پانی لے کر کیے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 113)
حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح وضو کرنے کی صراحت ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 137)
واضح رہے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ایک حدیث میں ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 139)
لیکن اس روایت کو امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے، نیز حافظ ابن قیم زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وضو کا طریقہ یہ تھا کہ آپ پانی کا ایک چلو لیتے آدھا پانی منہ میں اور باقی آدھا ناک میں ڈالتے۔
(زاد المعاد: 192/1)
2۔
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا۔
(باب اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ)
”لوگوں کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو استعمال میں لانا۔
“ بچے ہوئے پانی سے مراد برتن میں بچا ہوا پانی بھی ہوسکتا ہے اور دوران وضو میں اعضاء سے ٹپکنے والا پانی بھی ہوسکتا ہے۔
اس عنوان میں بھی امام بخاری ؒ نے اس مناسبت کو برقرار رکھا ہے۔
اس سے ناک میں پانی ڈالا جائے گا تو ظاہر ہے کہ کلی کرنے کے بعد جو پانی ہاتھ میں بچا ہے، اسی سے ناک میں پانی ڈالنے کا عمل سرانجام دیاجائے گا، گویا استعمال شدہ پانی دوبارہ کام میں لایا گیا ہے۔
اس انداز سے باب سابق کے ساتھ اس کا تعلق بھی ظاہر اور واضح ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:192
192. حضرت عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انھوں نے عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور لوگوں کے سامنے وضو کیا۔ (پہلے) انھوں نے برتن کو جھکایا اور (پانی لے کر) دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی کے تین چلوؤں سے تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اسے صاف کیا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی لے کر تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دوبار دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور سر پر آگے اور پیچھے دونوں طرف سے مسح کیا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہی روایت موسیٰ نے وہیب سے بیان کی تو کہا کہ سر پر ایک بارمسح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:192]
حدیث حاشیہ:
مسحِ راس کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے انھیں تین، تین بار دھونے کی تصریح احادیث سے ثابت ہے لیکن جن اعضاء پر مسح کیا جاتا ہے ان میں بھی تثلیث برقرار رہنی چاہیے، کیونکہ وضو ایک طہارت حکمیہ ہے، اس میں اعضائے مغسولہ اور اعضائے ممسوحہ میں فرق روا نہیں۔
لیکن امام بخاری ؒ نص کے مقابلے میں قیاس کو نہیں مانتے۔
ان کا موقف ہے کہ مسح میں تکرار نہیں ہے۔
اگرچہ بظاہر مسح کے وقت اقبال وادبارسے تکرار معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ تکرار مسحات نہیں بلکہ تکرار حرکات ہے۔
مسح ایک ہی مرتبہ ہے، اگرچہ اس کی حرکات دو ہیں۔
بعض حضرات نے درج ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مسح تین مرتبہ ہے۔
”رسول اللہ ﷺ نے وضو تین تین بارکیا۔
“ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 230)
لیکن اس روایت میں اجمال ہے جس کی وضاحت دوسری روایات سے ہوتی ہے جن میں صراحت ہے کہ مسح راس میں تکرار نہیں۔
اس بنا پرتین بار کے الفاظ کو اکثر ارکان وضو سے متعلق سمجھنا ہوگا یا دھوئے جانے والے اعضاء مراد ہیں۔
امام ابوداؤد ؒ وضو سے متعلقہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے وضو سے متعلقہ روایات عثمان جو بالکل صحیح ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 108)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے وہ ایک ہی بار مسح کرناہے، تاہم تین مرتبہ مسح کرنے والی روایت کو اگر کبھی کبھی پرمحمول کرلیا جائے توان میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا، کیونکہ سنداً وہ روایت بھی صحیح یا حسن ہے۔
(تمام المنة للألباني رحمة اللہ علیه ص: 91)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:199
199. عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے چچا (عمرو بن ابی الھسن) وضو کرتے وقت بہت زیادہ پانی بہاتے تھے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے درخواست کی کہ آپ مجھے نبی ﷺ کے وضو سے آگاہ فرمائیں، چنانچہ انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا۔ پھر انہیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اس طشت میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی چلو پانی سے تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کیا۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا، دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو، دو بار دھوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور اس سے اپنے سر کا مسح کیا۔ مسح کے وقت ہاتھوں کو پیچھے لے گئے، پھر آگے لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:199]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے پہلے باب میں بتایا گیا تھا کہ برتن میں ہاتھ ڈال کر وضو اور غسل کیا جاسکتا ہے اس باب میں برتن سے وضو کرنے کا دوسرا طریقہ بتایا گیا ہے کہ کسی برتن سے ہاتھ میں پانی لے کر وضو کیا جاسکتا ہے، اس صورت میں تکرار لازم نہیں آ تی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ تور، طشت سے چھوٹا ہوتا ہے کیونکہ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سونے کے طشت میں سونے کا تور رکھ کر پیش کیا گیا تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طشت اور تور دونوں الگ الگ برتن ہیں اور تور طشت سے چھوٹا ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 397/1)
لیکن علامہ عینی نے مزید تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس مقام پر تور، ابریق کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی لوٹا یا جگ وغیرہ جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے پانی، جگ وغیرہ میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔
(عمدۃ القاري: 561/2)
2۔
ایک روایت میں ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ہم نے پیتل کے تور میں پانی پیش کیا۔
(سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 100)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے برتن کے متعلق کوئی پابندی نہیں،خواہ کسی نوعیت کا ہو یا کسی بھی مادے سے تیار کیا گیا ہو اور وضو کے لیے پانی لینے کی بھی کوئی پابندی نہیں،اس میں ہاتھ ڈال کر بھی پانی لیا جاسکتا ہے اور اسے جھکا کر بھی اس سے پانی حاصل کیا جاسکتاہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 199
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 31
کیا تم مجھ کو دکھا سکتے ہو کس طرح وضو کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ کہا انہوں نے:: ہاں۔ تو منگایا انہوں نے پانی وضو کا، ڈالا اس کو اپنے ہاتھ پر اور دھویا دونوں ہاتھوں کو دو دو بار... [موطا امام مالك: 31]
فائدہ:
اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ کو عمرو بن یحیٰی کا دادا یا نانا قرار دیا وہم اور غلطی ہے جو موطا کو روایت کرنے والوں میں سے کسی سے صادر ہوئی ہے، صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ کے پاس عمرو بن یحیٰی کے والد (یحیٰی بن عمارہ بن ابی الحسن رحمہ اللہ)، والد کے چچا (عمرو بن ابی الحسن رحمہ اللہ) اور والد کے دادا (ابو الحسن رحمہ اللہ) سب موجود تھے، سب نے مل کر مسائل پوچھے، اُن میں سے عمرو بن ابی الحسن رحمہ اللہ نے وضو کا مسئلہ پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ صحیح بخاری کی اسی روایت 191 میں بڑی وضاحت سے یہ الفاظ موجود ہیں:
«مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفَةٍ وَاحِدَةً»
ایک ہی ہتھیلی سے کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی چڑھایا،
یعنی آدھا چُلو کُلی کے لیے اور باقی آدھا ناک کے لیے استعمال کیا اور اگلی روایت اس سے بھی واضح ہے کہ:
«فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَاسْتَنثَرَ ثَلاثًا بِثَلاثِ غَرَفَاتٍ مِنْ مَاءٍ»
”انھوں نے تین بار کُلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور جھاڑا اور یہ تینوں کام پانی کے صرف تین چلوؤں سے کیے۔“ [بخاري: 192]
الغرض کُلی اور ناک کی صفائی ایک ہی چلو سے اکٹھے کرنا راجح ہے۔ زیادہ تر روایات میں ایک چلو کے ساتھ کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا ذکر آ رہا ہے، ایک روایت میں کُلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر بھی ہے
[التاريخ الكبير لابن ابي خيثمة: 1410]
اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ دونوں طرح جائز ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 31