Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الوصايا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟
حدیث نمبر: 2698
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ:" كَانَ آخِرُ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی: نماز کا اور اپنے غلام و لونڈی کا خیال رکھنا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)، (تحفة الأ شراف: 10343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/78) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی نماز کو اپنے وقت پر شرائط اور اداب کے ساتھ پڑھو، بے وقت مت پڑھو، اور اس میں دیر مت کرو، اور غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھو کہ ان پر ظلم مت کرو، طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو، ان کو کھانے پہننے کی تکلیف نہ دو، جو لوگ نماز کا خیال نہیں رکھتے اس کو قضاء کر دیتے ہیں یا جلدی بغیر خشوع و خضوع کے پڑھ لیتے ہیں یا طہارت میں احتیاط نہیں کرتے یا اپنے لونڈی غلام اور خادم پر ظلم و ستم کرتے ہیں وہ کس طرح کے مسلمان ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت کا بھی ان کو خیال نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2698 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2698  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے انہیں صحیح قراردیا ہے۔
الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد کے محققین نے ان پر تفصیلی بحث کی ہے، اس تفصیلی بحث سے تصحیح حدیث کی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (الإرواء للالبانی، رقم: 2178، وفقه السیرۃ: 501، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 2؍24، 25، 19؍209، 210، 211)
۔

(2)
اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے، اس لیے رسول اللہﷺ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی نماز کی تاکید فرمائی۔

(39 غلاموں کا طبقہ معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ تھا جسے اسلام نے اتنی عزت دی کہ غلام بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے۔
خاندان غلاماں کی بادشاہت برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

(4)
یہ رسول اللہﷺ کی آخری وصیت تھی۔
نبی ﷺ کی زبان مبارک کے آخری الفاظ یہ تھے۔ (اللهم الرفيق الاعلى)
اے اللہ!بلند مرتبہ ساتھیوں سے ملا دے (صحیح البخاري، المغازي، باب آخر ما تکلم به النبیﷺ، حدیث: 4462)

(5)
جس طرح ہم خاندانی معاملات کے بارے میں وصیت کرتے ہیں اسی طرح دین کے احکام پر عمل کرنے کی بھی وصیت کرنی چاہیے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی یہ وصیت دین اور دنیا دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔
اسلام میں دونوں کو برابر اہمیت حاصل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2698   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5156  
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات (انتقال کے موقع پر) یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا، نماز کا خیال رکھنا، اور جو تمہاری ملکیت میں (غلام اور لونڈی) ہیں ان کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5156]
فوائد ومسائل:

ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے۔
لیکن دیگر محققین مثلا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند امام احمد کے محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔
محققین کی اس تفصیلی بحث سے تصیح حدیث کی رائے ہی اقرب الی الصواب محسوس ہوتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے۔
(الموسوعة الحدیثیة مسند إمام أحمد 209/19۔
210، حدیث: 12169)


غلام خادم اور نوکر بھی مسلمان معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔
واجب ہے کہ انسان صاحب ایمان ہونے کے ناطے ان کا خاص خیال رکھے ان کی اہانت کرنا یا انہیں ان کی ہمت سے بڑھ کر تکلیف دینا قطعاً جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5156