Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
45. بَابُ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ فِي الْمِخْضَبِ وَالْقَدَحِ وَالْخَشَبِ وَالْحِجَارَةِ:
باب: لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 196
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ".
ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے، وہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 196 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 196  
تشریح:
گو اس حدیث میں وضو کرنے کا ذکر نہیں۔ مگر منہ ہاتھ دھونے کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا ہی وضو کیا تھا اور راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ باب کا مطلب نکلنا ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 196   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:196  
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں قدح کا ذکر ہے جو لکڑی کے بنے ہوئے پیالے کو کہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس میں دست مبارک اور چہرے کو دھویا اور کلی کی۔
اگرچہ اس حدیث میں وضو کا ذکر نہیں، تاہم ہاتھ منہ دھونا اور کلی کرنا وضو کے اعمال ہیں۔
ممکن ہے کہ آپ نے مکمل وضو کیا ہو، لیکن راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
بہرحال امام بخاری ؒ اس روایت سے قدح میں وضو کرنا ثابت کرتے ہیں۔
اس لیے نوعیت اور مادہ دونوں چیزوں پر اس روایت سے استدلال ہو گیا۔
یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، اس سے متعلقہ فوائد حدیث: 188 میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 196   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6405  
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ میں پڑاؤ کیا ہوا تھا۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدو شخص آیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"خوش ہو جاؤ۔"(میں نے وعدہ کیا ہے تو پورا کروں گا۔)اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6405]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جعرانه:
یہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے،
آپ نے حنین کی غنیمتوں کو یہاں اکٹھا کیا تھا اور خود طائف کی طرف چلے گئے اور نئے نئے مسلمانوں کو آپ نے ان غنائم سے دینے کا وعدہ کیا تھا،
جس کا وہ اعرابی مطالبہ کر رہا تھا،
واپسی پر جب آپ مدینہ کا رخ کیے ہوئے تھے،
آپ نے ان غنیمتوں کو تقسیم کیا،
چونکہ آپ کا رخ مدینہ کی طرف تھا،
اس لیے جعرانہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیان کہہ دیا گیا اور اعرابی اس تاخیر پر بے صبرا ہو رہا تھا کہ مجھے غنیمت سے جلد سے جلد حصہ دیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6405   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4328  
4328. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جب آپ جعرانه میں ٹھہرے تھے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کیا آپ اسے پورا نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تیرے لیے بشارت ہے۔ وہ بولا یہ کیا بات ہے؟ آپ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں: خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر آپ ﷺ حضرت ابو موسٰی اور حضرت بلال ؓ کی طرف غضبناک حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، لہذا تم دونوں قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے کہا: ہمیں منظور ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں کلی بھی کی، پھر فرمایا: تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو اور کچھ اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو، نیز خوش ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4328]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی باب سے مناسبت اس فقرے سے نکلتی ہے کہ آپ جعرانہ میں اترے ہوئے تھے کیونکہ جعرانہ میں آپ غزوہ طائف میں ٹھہرے تھے۔
بدوی کو آنحضرت ا نے شاید کچھ روپے پیسے یا مال غنیمت دینے کا وعدہ فرمایا ہوگا جب وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا مال کی کیا حقیقت ہے جنت تجھ کو مبارک ہو لیکن بدقسمتی سے وہ بے ادب گنوار اس بشارت پر خوش نہ ہوا۔
آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا اور ابو موسی ؓ اوربلال ؓ کو یہ نعمت سرفراز فرمائی سچ ہے تہی دستان قسمت راچہ سود ازرہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را۔
جعرانہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیا ن کہنا راوی کا بھول ہے۔
جعرانہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔
سنہ 70 ءکے حج میں جعرانہ جانے اور اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا شرف مجھ کو بھی حاصل ہے۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4328   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4328  
4328. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جب آپ جعرانه میں ٹھہرے تھے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کیا آپ اسے پورا نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تیرے لیے بشارت ہے۔ وہ بولا یہ کیا بات ہے؟ آپ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں: خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر آپ ﷺ حضرت ابو موسٰی اور حضرت بلال ؓ کی طرف غضبناک حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، لہذا تم دونوں قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے کہا: ہمیں منظور ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں کلی بھی کی، پھر فرمایا: تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو اور کچھ اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو، نیز خوش ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4328]
حدیث حاشیہ:

جعرانہ ایک منزل کا نام ہے۔
المستوفرہ سے آئیں تو حرم مکی کی حد یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
یہ جگہ بیت اللہ تقریباً 23 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ مقام مکے اورمدینے کے درمیان نہیں جیسا کہ اس روایت میں ہےبلکہ مکے اورطائف کے درمیان ہے کیونکہ یہ طائف سے واپسی کا واقعہ ہے۔
شاید کسی راوی سے سہواً ایسا ہوا ہے کہ اسے مکے اورمدینے کے درمیان بیان کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی سےکوئی خاص وعدہ کیا ہوگا۔
ممکن ہےکہ عام وعدہ مراد ہو، وہ یہ کہ طائف سے جعرانہ واپس آکر اموال غنیمت تقسیم کریں گے لیکن وہ شخص اپنا حصہ لینے میں جلدی سے کام لے رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے اعرابی!تجھے بشارت ہو،عنقریب اموال غنیمت تقسیم ہوں گے۔
یا تجھے صبر کرنے میں اللہ کے ہاں بہت ثواب ملے گا اس کے بعد اعرابی کا رد عمل روایت میں موجود ہے۔
وہ بے ادب گنوار بدقسمتی سے رسول اللہ ﷺ کی بشارت پر خوش نہ ہوا۔
آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ اور حضرت بلال ؓ کو یہ نعمت عطا فرمائی، کسی نے سچ کہا ہے۔
تہی دستان ِ قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔
۔
کہ خضر از آب حیوان تشنہ مے آرد سکندر را۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت جعرانہ میں اکھٹے کررکھے تھے۔
آپ طائف چلے گئے۔
ایک خاص حکمت کے پیش نظر ان کی تقسیم میں دیرفرمائی، اس لیے نئے نئے مسلمانوں کو جلد بازی کی وجہ سے باتیں بنانے کا موقع ملا، چنانچہ آپ ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد انھیں تقسیم فرمایا۔
(فتح الباري: 58/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4328