سنن ابن ماجه
كتاب الحدود
کتاب: حدود کے احکام و مسائل
5. بَابُ : السَّتْرِ عَلَى الْمُؤْمِنِ وَدَفْعِ الْحُدُودِ بِالشُّبُهَاتِ
باب: مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالنے کا ثواب اور شکوک و شبہات کی وجہ سے حد ساقط ہو جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2546
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِي بَيْتِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6043، ومصباح الزجاجة: 903) (صحیح)» (سند میں محمد بن عثمان جُمَحِي ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 387)
وضاحت: ۱؎: یہ تجربہ کی بات ہے کہ جو کوئی اپنے بھائی مسلمان کا عیب اس کو ذلیل کرنے کے لئے ظاہر کرتا ہے وہ اس سے بڑھ کر عیب میں گرفتار ہوتا ہے، اور اس سے بڑھ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن عثمان بن صفوان الجمحي: ضعيف (تقريب: 6130)
والحديث السابق (الأصل: 2544) يُغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 471
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2546 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2546
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مذکورہ حدیث ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دے کر کہا کہ حدیث نمبر: 2544 اور225 اس سےکفایت کرتی ہیں علاوہ ازیں دیگر محققین نےبھی اسے صیحح قراردیا ہے لہٰذامذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باجود دیگر شواہد کی بنا قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحیحة للألبانی رقم: 2341)
(2)
برہنگی چپھانے سے ظاہری معنیٰ بھی مراد ہوسکتے ہیں جس کو کپڑے کی ضرورت ہو اسے کپڑا پہنایا جائے اور کسی کو رسوا ہونے سے بچانا بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اگرکسی کے عیب کاعلم ہو جائے تو دوسروں کو بتانے کی بجائے اسے تنہائی میں نصیجت کی جائے تاکہ وہ باز آ جائے۔
(3)
کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی کوشش کرنے ولا خود ذلیل ہوکر رہتا ہے۔
(4)
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
کسی کو رسواکرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مجھ میں یہ عیب نہیں اس لیے مجھے رسوائی کا اندیشہ نہیں۔
انسان کسی بھی لمحے اپنی کمزوری کا یا شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہےاس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2546