صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
4. بَابُ مَا يُتَنَزَّهُ مِنَ الشُّبُهَاتِ:
باب: مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا۔
حدیث نمبر: 2055
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرَةٍ مَسْقُوطَةٍ، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ تَكُونَ مِنْ صَدَقَةٍ لَأَكَلْتُهَا"، وَقَالَ هَمَّامٌ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَجِدُ تَمْرَةً سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گری ہوئی کھجور پر گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کے صدقہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔ اور ہمام بن منبہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں اپنے بستر پر پڑی ہوئی ایک کھجور پاتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2055 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2055
حدیث حاشیہ:
یہ کھجور آپ ﷺ کو اپنے بچھونے پر ملی تھی جیسے اس کے بعد کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔
شاید آپ صدقہ کی کھجور بانٹ کر آئے ہوں اور کوئی ان ہی میں سے آپ کے کپڑوں میں لگ گئی ہو اور بچھونے پر گرپڑی ہو یہ شبہ آپ کو معلوم ہوا، اور آپ ﷺ نے محض اس شبہ کی بنا پر اس کے کھانے سے پرہیز کیا، معلوم ہوا کہ مشتبہ چیز کے کھانے سے پرہیز کرنا کمال تقویٰ اور ورع ہے۔
اس مقصد کے پیش نظر اپنے منعقدہ باب کے تحت حضرت امام ؒ یہ حدیث لائے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2055
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2055
حدیث حاشیہ:
(1)
شبہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کی حلت وحرمت یا طہارت ونجاست کے دلائل یکساں ہوں۔
کسی ایک کی ترجیح پر کوئی دلیل نہ ہو۔
ایسی اشیاء سے اجتناب کرنا چاہیے۔
تقویٰ اور پرہیز گاری کا تقاضا بھی یہی ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر میں بستر پر ایک کھجور پڑی ہوئی ملی۔
شاید آپ صدقے کی کھجوریں تقسیم کرکے آئے ہوں۔
ان میں سے کوئی کھجور آپ کے کپڑوں سے اٹک گئی ہو اور وہی آپ کے بستر پر گر پڑی ہو۔
اس شبہ کی بنا پر آپ نے اسے کھانے سے پرہیز کیا، چنانچہ اس سلسلے میں ایک مفصل روایت بایں الفاظ ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب میں واپس اپنے گھر جاتا ہوں تو اپنے بستر پر ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھتا ہوں،میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں، پھر میں ڈرتا ہوں کہ مبادا صدقے کی ہو،اس لیے اسے پھینک دیتا ہوں۔
“ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث: 2432)
حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے تورع اور پرہیز گاری کی وجہ سے اس کھجور کوکھانے سے اجتناب کیا۔
آپ پر ایسا کرنا واجب نہ تھا کیونکہ گھر میں جو چیز موجود ہوتی ہے اس میں اصل اباحت اور جواز ہے حتی کہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل قائم ہوجائے۔
(فتح الباري: 378/4)
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات سخت بے قراری اور پریشانی میں بیدار رہے،دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ نے ایک گری پڑی کھجور کو کھالیا تھا، اس کے بعد یاد آیا کہ گھر میں صدقے کی کھجوریں بھی تھیں جنھیں غرباء میں تقسیم کرنا تھا، اس لیے آپ کو پریشانی ہوئی کہ اس کھجور کے متعلق یقین نہ تھا،یعنی صدقے کی کھجور سے تھی یا گھر کے استعمال کے لیے رکھی ہوئی کھجوروں میں سے تھی۔
(مسند أحمد: 193/2)
انھیں تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔
غالباً اس واقعے کے بعد آپ نے اس قسم کی کھجوروں کو کھانا ترک کردیا تھا۔
(فتح الباري: 378/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2055