صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ (یعنی رزق حلال کی تلاش میں اپنے کاروبار کو سنبھال لو) اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور جب انہوں نے سودا بکتے دیکھا یا کوئی تماشا دیکھا تو اس کی طرف متفرق ہو گئے اور تجھ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تماشے اور سوداگری سے بہتر ہے اور اللہ ہی ہے بہتر رزق دینے والا“۔
حدیث نمبر: 2050
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَتْ عُكَاظٌ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ، فَكَأَنَّهُمْ تَأَثَّمُوا فِيهِ، فَنَزَلَتْ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198، فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ"، قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عکاظ مجنہ، اور ذوالمجاز عہد جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو ایسا ہوا کہ مسلمان لوگ (خرید و فروخت کے لیے ان بازاروں میں جانا) گناہ سمجھنے لگے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی ”تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل (یعنی رزق حلال) کی تلاش کرو حج کے موسم میں“ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرآت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2050 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2050
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کی قرات میں آیت کریمہ ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ﴾ سے آگے في موسم الحج کے لفظ زائد ہیں۔
مگر عام قراتوں میں یہ زائد لفظ نہیں ہیں یا شاید یہ منسوخ ہو گئے ہوں اور حضرت ابن عباس ؓ کو نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو۔
حدیث میں زمانہ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکرہے۔
اسلام نے اپنے عہد میں تجارتی منڈیوں کو ترقی دی، اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
مگر خرافات اور مکر و فریب والوں کے لیے بازار سے بدتر کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2050
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2050
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں یہ حدیث کتاب الحج بیان کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایام حج میں تجارت کی جاسکتی ہے،نیز جاہلیت کی منڈیوں میں خریدوفروخت کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
چونکہ اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکر ہے اور اسلام نے اپنے عہد میں ان تجارتی منڈیوں کو خوب ترقی دی اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی،اس سے اس پیشے کی اہمیت وافادیت کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ قراءت مشہورہ کے برعکس اس آیت کے آخر میں (في مواسم الحج)
کے الفاظ پڑھتے تھے۔
ممکن ہے کہ مذکورہ الفاظ آیت کا حصہ ہوں، جسے منسوخ کردیا گیا لیکن حضرت ابن عباس ؓ کو اس کا علم نہ ہوسکا۔
اسے قراءت شاذ کہتے ہیں جس سے قراءت ثابت نہیں ہوتی، البتہ مسائل کے اخذ واستنباط میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔
(فتح الباري: 388/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2050