Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الرهون
کتاب: رہن کے احکام و مسائل
10. بَابُ : مَا يُكْرَهُ مِنَ الْمُزَارَعَةِ
باب: مکروہ مزارعت (بٹائی) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2460
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ ابْن أَخِي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا إِذَا اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ أَعْطَاهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ وَاشْتَرَطَ ثَلَاثَ جَدَاوِلَ وَالْقُصَارَةَ وَمَا يَسْقِي الرَّبِيعُ، وَكَانَ الْعَيْشُ إِذْ ذَاكَ شَدِيدًا، وَكَانَ يَعْمَلُ فِيهَا بِالْحَدِيدِ وَبِمَا شَاءَ اللَّهُ وَيُصِيبُ مِنْهَا مَنْفَعَةً فَأَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ أَنْفَعُ لَكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَنْهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ وَيَقُولُ:" مَنِ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کو زمین کی حاجت نہیں ہوتی تھی تو اسے تہائی یا چوتھائی یا آدھے کی بٹائی پردے دیتا، اور تین شرطیں لگاتا کہ نالیوں کے قریب والی زمین کی پیداوار، صفائی کے بعد بالیوں میں بچ جانے والا غلہ اور فصل ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہو گی وہ میں لوں گا، اس وقت لوگوں کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، وہ ان میں پھاؤڑے سے اور ان طریقوں سے جن سے اللہ چاہتا محنت کرتا اور اس سے فائدہ حاصل کرتا، آخر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک کام سے جو تمہارے لیے مفید تھا منع فرما دیا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں: جس کو اپنی زمین کی ضرورت نہ ہو وہ اسے اپنے بھائی کو مفت (بطور عطیہ) دیدے، یا اسے خالی پڑی رہنے دے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 32 (3398)، سنن النسائی/المزارعة 2 (3894)، (تحفة الأشراف: 3549)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/کراء الأرض 1 (1) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2460 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2460  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف یا چوتھائی پیداوار کی جو شرط منع ہے وہ اس طرح ہے کہ زمین کےکسی خاص ٹکڑے کی پیداوار زمین کے مالک کے لیے ہو۔
مالک عموما ایسا ٹکڑا منتخب کرتا ہےتھا جوآبی گزر گاہ یا پانی کی نالی وغیرہ کےقریب واقع ہوتا اس لیے اس میں پیداوار زیادہ ہونے کی توقع ہوتی تھی۔

(2)
کھیت کی کل پیداوار میں سے نصف تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط لگانا جائز ہے۔

(3)
بٹائی کی بجائے زمین عاریتاً دے دینا افضل ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کےحکم کی تعمیل دنیا کےظاہری مفاد سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ارشاد نبوی کی تعمیل میں آخرت کا فائدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2460   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3895  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: جس کی کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3895]
اردو حاشہ:
البتہ مزابنہ کی یہ صورت غریب لوگوں کے لیے تھوڑی مقدار میں (پندرہ بیس من تک) کھانے پینے کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے اور شریعت مجبوریوں کا لحاظ رکھتی ہے۔ لیکن تجارتی بنیاد پر کثیر مقدار میں جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3895   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3398  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو «حقل» سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھائی کو (مفت) دیدے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3398]
فوائد ومسائل:

علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔
تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔
ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔
یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔
اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی کہ نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔
اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔
(مالک کے ہوں گے) الخ (نیل الأوطار: 312/5 باب فسادالعقد إذا شرط أحدھما لنفسه التبن أو بقعة یعینھا ونحوہ)

ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔
اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔
فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3398