سنن ابن ماجه
كتاب الرهون
کتاب: رہن کے احکام و مسائل
9. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي كِرَاءِ الأَرْضِ الْبَيْضَاءِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ
باب: خالی زمین کو سونے چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2458
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ، قَالَ: كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ عَلَى أَنَّ لَكَ مَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ وَلِي مَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ" فَنُهِينَا أَنْ نُكْرِيَهَا بِمَا أَخْرَجَتْ وَلَمْ نُنْهَ أَنْ نُكْرِيَ الْأَرْضَ بِالْوَرِقِ".
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین کو اس شرط پر کرایہ پر دیتے تھے کہ فلاں جگہ کی پیداوار میری ہو گی، اور فلاں جگہ کی تمہاری، تو ہم کو پیداوار پر زمین کرائے پر دینے سے منع کر دیا گیا، البتہ چاندی کے بدلے یعنی نقد کرائے پر دینے سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 7 (2327)، 12 (2332)، 19 (2346)، الشروط 7، (2722)، صحیح مسلم/البیوع 19 (1547)، سنن ابی داود/البیوع 31 (3392، 3393)، سنن النسائی/المزارعة 2 (3930، 3931، 3933)، (تحفة الأشراف: 3553)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/کراء الارض 1 (1)، مسند احمد (4/142) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس قسم کی شرط بٹائی کی زمین میں درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کسی قطعہ زمین کی پیداوار خوب ہوا، اور دوسرے قطعہ میں کچھ پیدا نہ ہو، دراصل اسی قسم کی بٹائی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، صحابی رسول رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اس سے مطلق بٹائی کی ممانعت سمجھ لی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه