Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الصدقات
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
20. بَابُ : أَدَاءِ الدَّيْنِ عَنِ الْمَيِّتِ
باب: میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2433
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ ، أَنَّ أَخَاهُ مَاتَ وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتَرَكَ عِيَالًا فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَهَا عَلَى عِيَالِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَيْنِهِ، فَاقْضِ عَنْهُ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ، ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ، قَالَ:" فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ".
سعد بن اطول رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے بھائی وفات پا گئے، اور (ترکہ میں) تین سو درہم اور بال بچے چھوڑے، میں نے چاہا کہ ان درہموں کو ان کے بال بچوں پر صرف کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے قرض کے بدلے قید ہے، اس کا قرض ادا کرو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ان کی طرف سے سارے قرض ادا کر دئیے ہیں، سوائے ان دو درہموں کے جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیا ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو بھی ادا کر دو اس لیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3823، ومصباح الزجاجة: 856)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/136، 5/7) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الملك أبو جعفر مجھول الحال
و للحديث شاھد صحيح عند أحمد (5/ 7) والبخاري في التاريخ الكبير (4/ 45) والبيهقي (10/ 142) إلا أنه لم يسم كم ترك
يعني الحديث صحيح دون قوله: و ترك ثلاثمائة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2433 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2433  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
بیوی بچوں پرخرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مال ان کے حوالے کردیا جائے یا اس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں کیونکہ مرنے والے کے ترکے میں سے بیوی کا حقہ مقرر ہے جو باقی بچے وہ بچوں کا ہے۔

(2)
وراثت میں بعض افراد کا حصہ مقررہے۔
انھیں حصہ دینے کےبعد باقی مال قریبی رشتے داروں کو ملتا ہے۔
انھیں عصبہ کہتے ہیں۔
عصبہ افراد میں بیٹا، بھائی پرمقدم ہے۔

(3)
ترکے کی تقسیم قرض کی ادائیگی کے بعد ہوتی ہے۔

(4)
عورت کا یہ دعوی تھا کہ مرنے والے کےذمے اس کے دو دینار تھے۔
حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ اپنے اطمینان کےلیے گواہی طلب کرتےتھے عورت کے پاس گواہی نہ تھی اس قسم کی مشکلات سے بچنے کےلیے حکم دیا گیا ہے کہ قرض کا لین دین تحریر میں لانا چاہیے اور گواہ بھی مقرر کیے جائیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہو گیا کہ عورت کا دعوی درست ہے اس لیے نبی ﷺاسے دو دینار دلوا دیے۔

(6)
قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں فوت ہونے والے کواللہ کے ہاں قید کیا جاتا ہے لیکن یہ قید صرف جنت میں داخلے سےرکاوٹ ہے اس کی وجہ سے وہ جہنم کا مستحق نہیں بن جاتا۔
واللہ أعلم.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2433