سنن ابن ماجه
كتاب الهبات
کتاب: ہبہ کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الرَّجُلِ يَنْحَلُ وَلَدَهُ
باب: اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2375
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: انْطَلَقَ بِهِ أَبُوهُ يَحْمِلُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اشْهَدْ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ مِنْ مَالِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ:" فَكُلَّ بَنِيكَ نَحَلْتَ مِثْلَ الَّذِي نَحَلْتَ النُّعْمَانَ"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي"، قَالَ:" أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً"، قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَلَا إِذًا".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، اور عرض کیا: میں آپ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے مال میں سے فلاں فلاں چیز نعمان کو دے دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسی ہی چیزیں دی ہیں جو نعمان کو دی ہیں“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب میرے علاوہ کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو، کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تمہارے سارے بیٹے تم سے نیک سلوک کرنے میں برابر ہوں“؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب ایسا مت کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الھبة 12 (2587)، صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، سنن ابی داود/البیوع 85 (3542)، سنن النسائی/النحل (3709)، (تحفة الأشراف: 11625)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 33 (39)، مسند احمد (4/268، 269، 270، 273، 276) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولاد کو عطیہ دینے میں سب کا حصہ برابر کا ہو گا، کم زیادہ ہو تو ہبہ باطل ہے مگر جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ سب کو برابر دینا مندوب ہے، عطیہ وہبہ میں کسی کو زیادہ دینے سے ہبہ باطل نہیں ہوتا لیکن ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ظلم کہا ہے اور نعمان کے والد بشیر سے آپ کا یہ فرمانا «فاردده» ”اسے واپس لے لو“ اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ اولاد کے ساتھ عطیہ میں برابر کا سلوک واجب ہے، یہی احمد، سفیان ثوری اور اسحاق ابن راہویہ وغیرہ کا مذہب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه