Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
31. بَابُ : الْقَضَاءِ بِالشَّاهِدِ وَالْيَمِينِ
باب: ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2371
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، عَنْ سُرَّقٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَازَ شَهَادَةَ الرَّجُلِ وَيَمِينَ الطَّالِبِ".
سرق (ابن اسد جہنی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی کی قسم کے ساتھ ایک شخص کی گواہی کو جائز رکھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3822، ومصباح الزجاجة: 831)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/321) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں مصری تابعی مبہم راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: ابن الجوزی نے التحقیق میں کہا کہ اس حدیث کے راوی بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ فرمایا اور جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ مدعی سے قسم لی جائے، اگر وہ قسم کھا لے تو اس کا دعوی ثابت ہو گیا، اور اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اب مدعی علیہ سے قسم لیں گے، اگر اس نے قسم کھا لی تو مدعی کا دعوی ساقط ہو گیا، اور اگر انکار کیا تو مدعی کا دعوی ثابت ہو گیا، اور پھر مدعی کا حق مدعی علیہ سے دلوایا جائے گا، الا یہ کہ وہ معاف کر دے، مگر یہ امر اموال کے دعوی میں ہو گا (یعنی ایک شاہد اور قسم پر فیصلہ) جب کہ حدود، نکاح، طلاق، عتاق،سرقہ اور قذف وغیرہ میں دو گواہ ضروری ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
رجل من أھل مصر مجھول وضعفه البوصيري من أجله
ولأصل الحديث شاھد صحيح تقدم قبله (الأصل: 2370)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 464

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2371 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2371  
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نےسنداً ضعیف قرار دیتےہوئے کہا کہ اس حدیث کی اصل سابقہ روایت ہے اور وہ اس کی شاہد بھی ہےاورصحیح بھی ہے علاوہ ازیں دیگر محقیقین نےبھی مذکورہ روایت کو ماقبل روایت کی وجہ سےصحیح قراردیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کےباوجود ماقبل روایت کی بنا پرقابل عمل اورقابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھیے: (الإرواء للألبانی: 8؍305، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 2371)

(2)
دعوی ثابت کرنےکےلیے دو قابل اعتماد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

(3)
اگردومرد گواہ نہ ہوں توایک مرد اوردوعورتوں کی گواہی بھی معتبر ہے (سورة بقرة:
آیت: 283)


(3)
  اگر مدعی کے پاس کوئی گواہ نہ ہوتو مدعا علیہ اپنا موقف صحیح ہونے پرقسم کھائے گا، اس طرح مدعا علیہ کےحق میں فیصلہ ہوجائے گا۔

(4)
اگرمدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہوتومدعی ایک قسم کھائے گا اوراس طرح مدعی کا دعوی ثابت ہوجائے گا۔

(5)
امام ترمذی رحمہ اللہ نےفرمایا:
صحابہ ؓ اورتابعین میں سے بعض علماء کےنزدیک اس پرعمل ہے کہ حقوق اورمالی معاملات میں ایک گواہ کےساتھ ایک قسم (کی بنا پرفیصلہ کرنا)
درست ہے۔
امام مالک امام شافعی، امام احمد بن حنبل اورامام اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی موقف ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی الأحکام باب ماجاء فی الیمین مع الشاھد، حدیث: 1345)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2371