سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
30. بَابُ : مَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
باب: جن لوگوں کی گواہی جائز نہیں ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 2366
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ وَلَا مَحْدُودٍ فِي الْإِسْلَامِ وَلَا ذِي غِمْرٍ عَلَى أَخِيهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ خائن مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ خائن عورت کی، اور نہ اس کی جس پر اسلام میں حد نافذ ہوئی ہو، اور نہ اس کی جو اپنے بھائی کے خلاف کینہ و عداوت رکھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8674)، ومصباح الزجاجة: 830)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/181، 203، 208) (حسن)» (سند میں حجاج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن ترمذی میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2669)
وضاحت: ۱؎: جس سے وہ کینہ رکھتا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس کے فائدہ کے لئے گواہی دے تو قبول ہو گی، اہل حدیث کے نزدیک اس شخص کی شہادت جو عادل نہ ہو مقبول نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن میں ہے: «وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ» (سورة الطلاق:2)، ”اور اپنے میں سے دو عادل کوگواہ کر لو“ غرض یہ کہ شہادت میں ضروری ہے کہ شاہد مسلمان ہو، آزاد ہو، مکلف ہو، یعنی عاقل بالغ ہو، عادل ہو، صاحب مروت ہو متہم نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس
وللحديث شواھد ضعيفة وأصل الحديث صحيح بلفظ: ((لا تجوز شھادة خائن ولا خائنة ولا زان ولا زانية ولا ذ ي غمر علي أخيه)) (أبو داود: 3601) وسنده قوي
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 464
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2366 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2366
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نےسنداً ضعیف قرار دے کرکہا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح ہے نیزسنن ابوداود میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سےمروی روایت کوحسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابوداؤد (اردو)
طبع دارالسلام، حدیث: 3600، 3601)
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ہمارے فاضل محقق کےنزدیک قابل عمل اروقابل حجت ہے، علاوہ ازیں دیگرمحقیقین نے بھی اسے حسن قراردیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگرشواہد کی بنا پرقابل عمل اورقابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھیے::
(الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 11، 299، 300، والإرواء للألبانی، رقم: 2669، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2366)
(2)
امانت میں خیانت کرنے والا قابل اعتماد نہیں ہوتا، لہٰذا عدالت میں اس کی گواہی قبول نہیں۔
(3)
”حد“بعض خاص جرائم کی سزاوں کوکہا جاتا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں۔
عدالت کو ان میں کمی بیشی کا حق نہیں۔
ان کےعلاوہ دیگر سزاوں کو”تعزیر“کہتےہیں جن میں حالات کےمطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
(4)
جب یہ ثابت ہوجائے کہ گواہ نے جس کے خلاف گواہی دی ہے، اس سے اس کی پہلے سے ناراضی ہے توی ہ بات گواہی کومشکوک بنا دیتی ہے ممکن ہےکہ وہ پرانی دشمنی کی وجہ سےاس کے خلاف گواہی دے کراپنا بدلہ لینا چاہتا ہو۔
(5)
بھائی سےمراد دینی بھائی یعنی مسلمان ہے۔
اس میں حقیقی بھائی بھی شامل ہے کیونکہ مسلمان ہونے کی صورت میں وہ بھی دینی بھائی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2366
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1203
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” خائن مرد و عورت کی گواہی جائز نہیں اور دشمن اور کینہ ور شخص کی اپنے بھائی کے خلاف بھی گواہی جائز نہیں اور جو شخص کسی دوسرے کے زیر کفالت ہو اس کی گواہی کفیل خاندان کے حق میں جائز نہیں ہے۔“ (مسند احمد، ابوداؤد) «بلوغ المرام/حدیث: 1203»
تخریج: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب من ترد شهادة، حديث:3600 وأحمد:2 /181، 203.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خائن‘ دشمن اور کینہ ور کی شہادت ناجائز ہے۔
اسی طرح جو شخص کسی کے زیرکفالت ہو اس کی گواہی بھی اس شخص اور اس کے اہل خانہ کے حق میں قبول نہیں تاکہ جانب داری کا شبہ نہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1203
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3600
´کس کی گواہی نہیں مانی جائے گی؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں (مالکوں) کے حق میں ہو رد کر دیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «غمر» کے معنیٰ: کینہ اور بغض کے ہیں، اور «قانع» سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3600]
فوائد ومسائل:
توضیح: خائن یا خائنہ کی گواہی مطلقاً مردود ہے۔
اس میں مالی خیانت اور زبانی خیانت (جھوٹ) دونوں ایک جیسے ہیں۔
لیکن کینہ پرور اور بغیض کی گواہی میں اس صورت میں مردود ہے۔
جب معاملہ ان کے ساتھ ہو جن کے ساتھ اس کی دشمنی ہو۔
اگر سچا ہے تو دوسرے لوگوں میں مقبول ہوگی۔
اسی طرح ہی نوکر اور غلام کی طرح کے تابع قسم کے لوگوں کی گواہی اپنے ولی کے حق میں قبول نہیں۔
اگر سچے ہیں تو دوسروں کے حق میں قبول ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3600