سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
20. بَابُ : الْقَضَاءِ بِالْقُرْعَةِ
باب: قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2348
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ:" أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ فِي ثَلَاثَةٍ قَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے، تو ان کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ تین آدمیوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو انہوں نے پہلے دو آدمیوں سے پوچھا: کیا تم دونوں اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ ان دونوں نے کہا: نہیں، پھر دو کو الگ کیا، اور ان سے پوچھا: کیا تم دونوں اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ اس طرح جب وہ دو دو سے پوچھتے کہ تم اس لڑکے کو تیسرے کا کہتے ہو؟ تو وہ انکار کرتے، آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی، اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اس کو دلایا، اور دو تہائی کی دیت اس پر لازم کر دی، اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہو گئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 32 (2270)، سنن النسائی/الطلاق 50 (3518)، (تحفة الأشراف: 3670)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/373، 474) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلہ عجیب طور کا تھا، اور دو تہائی دیت کی اس سے اس لئے دلوائی کہ دعوی کے مطابق اس لڑکے میں تینوں شریک تھے، اب قرعہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے کیا، نہ نسب ثابت کرنے کے لئے، تو اس شخص کو بچہ کا دو تہائی کا بدلہ دوسرے دعویداروں کو دینا پڑا اور یہ علی رضی اللہ عنہ کی اپنی رائے تھی، لیکن ابوداود نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت میں یہ حکم فرمایا: وہ بچہ اپنی ماں کے پاس رہے گا، اور کسی سے اس کا نسب ثابت نہ ہو گا، نہ وہ ان دعویداروں میں سے کسی مرد کا وارث ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2348 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2348
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجۃ بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم: 2348ں و صحیح سنن أبي داؤد (مفصل)
للألبانی رقم: 1963، 1964)
زمانہ جاہلیت میں عورتوں سے ناجائز تعلقات کا عام رواج تھا جب کہ بعض عورتیں طوائف کا پیشہ بھی اختیار کر لیتی تھیں۔
ایسی عورتوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے کئی دعویدار ظاہر ہوجاتےتھے۔
حدیث میں مذکورہ واقعہ میں بھی ممکن ہے کہ ان افراد نے اس بچے کی ماں سے اسلام قبول کرنے سے پہلے تعلق قائم کیا ہو لیکن جھگڑا مسلمان ہونے کے بعد پیدا ہوا ہو۔
(2)
مشترکہ چیز کے دعویداروں میں کوئی ایک اگر اپنے دعوے یا اپنے حصے سے دست بردار ہو جائے تو چیز دوسرے کومل جائے گی۔
اگر تین دعویداروں میں سے دو آدمی تیسرے کے حق میں دست بردار ہو جائیں تو چیز اسے دے دی جائےگی۔
(3)
یہ بچہ اگرچہ آزاد تھا لیکن پیش آمدہ صورت میں تینوں مدعی اس میں شریک تھے لہٰذا ہر مدعی کو اس کے تہائی حصے کا مالک قرار دیا گیا۔
اب چونکہ زندہ چیز کو حصے کرکے تقسیم کرناممکن نہیں اس لیے ضروری تھا کہ ہر ایک کو اپنے حصے کی قیمت ملے۔
کسی جانور وغیرہ کے متعلق بھی یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کو وہ چیز ملے وہ دوسروں کو ان کے حصوں کی قیمت ادا کر دے۔
(4)
آزاد انسان قابل فروخت نہیں لہٰذا اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن قتل خطا وغیرہ کی صورت میں اس کی دیت سو اونٹ مقرر کی گئی ہے لہٰذا حضرت علی ؓ نے اس مقدار کو اس کی قیمت کا متبادل قرار دے دیا۔
(5)
جب کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس کےبارے میں قرآن وحدیث سے کوئی نص معلوم نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کی روشنی میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے لیکن نص کی موجودگی میں قیاس جائز نہیں۔
(6)
اگرچہ کثرت سے ہنسنے کی عادت بنا لینا مستحسن نہیں تاہم کوئی خوشی یا تعجب کی بات ہو جائے تو ہنس پڑنا عالم یا بزرگ کی شان کے خلاف بھی نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2348
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3518
´کسی لڑکے کے نسبت کے بارے میں جھگڑا ہو جائے تو قرعہ اندازی کی جائے گی اور زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث میں شعبی کے اختلاف کا ذکر۔`
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم و قبول کرتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3518]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو فاضل محقق رحمہ اللہ نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے اور راجح رائے نے انہی کی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داود (مفصل) للألبانی‘ رقم: 1964‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد‘ رقم:2348‘ وذخیرۃ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی: 29/187)
(2) اصل واقعہ جاہلیت کے دور کا تھا کیونکہ اسلام میں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ تین آدمی ایک طہر میں ایک عورت سے جماع کریں۔ چونکہ جاہلیت کے کاموں پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی بلکہ اس دور کے تصرفات کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جو ہوا سو ہوا‘ آئندہ کے لیے اس واقعہ کا حل بھی ضروری تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خدا داد ذہانت سے تجویز فرمایا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
(3) ”قرعہ نکلا“اگر کسی چیز پر کئی افراد کا حق برابر ہو لیکن وہ سب کو نہ مل سکتی ہو تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں اس کا ثبوت ہے مگر احناف قرعہ اندازی کے قائل نہیں‘ حالانکہ کئی دعوے دارو ں کو مطمئن کرنے کے لیے قرعہ اندازی کرنا ایک فطری چیز ہے جو ہر معاشرے میں مستعمل ہے اور اس سے فیصلے ہوتے ہیں۔ جھگڑے نپٹ جاتے ہیں۔ ایسی چیز کا عقلی بنیاد پر انکار فطرت انسانیہ کے خلاف ہے۔ ہر چیز کا فیصلہ عقلی بنیاد پر ہی نہیں ہوتا‘ فطرت اصل ہے۔
(4) ”دوتہائی دیت ڈال دی“ کیونکہ ان کو بچہ نہ مل سکا تھا‘ لہٰذا انہیں مال دے دیا۔ شرعاً بچے کی قیمت دیت معتبر ہے‘ اس لیے دیت کے لحاظ سے انہیں مال دے دیا۔
(5) ثابت ہوا کہ بچہ ایک آدمی ہی کو ملے گا۔ دو آدمی ایک بچے میں شریک نہیں ہو سکتے‘ یعنی بچے کا نسب ایک آدمی کے ساتھ ثابت ہوگا۔
(6) ”ہنسنے لگے“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذہانت پر یا اس عجیب واقعہ پر۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3518