سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
13. بَابُ : الْحُكْمِ فِيمَا أَفْسَدَتِ الْمَوَاشِي بِاللَّيْلِ
باب: مویشیوں نے اگر کسی کے کھیت اور باغ کو نقصان پہنچا دیا ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2332
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ" أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ كَانَتْ ضَارِيَةً دَخَلَتْ فِي حَائِطِ قَوْمٍ فَأَفْسَدَتْ فِيهِ فَكُلِّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقَضَى أَنَّ حِفْظَ الْأَمْوَالِ عَلَى أَهْلِهَا بِالنَّهَارِ، وَعَلَى أَهْلِ الْمَوَاشِي مَا أَصَابَتْ مَوَاشِيهِمْ بِاللَّيْلِ".
ابن محیصہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ براء رضی اللہ عنہ کی ایک اونٹنی کو لوگوں کا کھیت چرنے کی عادی تھی، وہ لوگوں کے باغ میں چلی گئی، اور اسے نقصان پہنچا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ ”دن کو اپنے مال کی حفاظت کی ذمہ داری مال والوں کی ہے، اور رات کو جانور جو نقصان پہنچا جائیں اسے جانوروں کے مالکوں کو دینا ہو گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 92 (3570)، (تحفة الأشراف: 1753)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاقضیة 28 ((37)، مسند احمد (4/295، 5/436) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ رات کو جانور والوں کو چاہئے کہ اپنے جانور باندھ کر رکھیں، جب انہوں نے چھوڑ دیا اور کسی کا نقصان کیا تو نقصان ان کو بھرنا پڑے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3570)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2332 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2332
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض دیگر محققین نے شواہد کی بنیاد پر اسے مرسل صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثة مسند الإمام أحمد: 39/ 97، 99، والصحيحة للألبانى، رقم: 238)
بنابریں باغ یا کھیت میں دن کے وقت عام طور پر کام ہوتا ہے اور مالک اپنے باغ اور کھیت میں موجود ہوتے ہیں اس لیے اگر کسی کا جانور آ جائے تو وہ اسے آسانی سے روک سکتے ہیں لہٰذا وہی اپنے مال کی حفاظت کے ذمے دار ہیں۔
(2)
رات آرام کےلیے ہے اور جانور بھی باڑوں میں بند ہوتے ہیں اس لیے اگر رات کے وقت کوئی جانور کسی کے کھیت یا باغ میں جا گھسے تو یہ جانور کے مالک کی بے پروائی اور غلطی ہے اس لیے اسے چاہیے کہ نقصان پورا کرے اس کے برعکس دن میں نقصان ہو جانا باغ والے یا کھیت والے کی کوتاہی ہے جانور کا مالک ذمے دار نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2332
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1030
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ” دن کے اوقات میں باغوں کی حفاظت و نگرانی مالکان باغ کریں اور رات کے اوقات میں مویشیوں کی حفاظت مالکان مویشی کریں۔ رات کے اوقات میں جس قدر مویشی کسی کا نقصان کریں گے اس کا تاوان مویشیوں کے مالکان پر ہو گا۔“ اس حدیث کو احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے سوائے ترمذی کے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے تاہم اس کی سند میں اختلاف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1030»
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب المواشي تفسد زرع قوم، حديث:3570، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2332، والنسائي في الكبرٰي، حديث:5784، وأحمد:4 /295، 5 /436، وابن حبان، الزهري عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے مرسل صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۳۹ /۹۷. ۹۹‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۲۳۸) 2. امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جانور دن کے اوقات میں جو نقصان کریں اس کا کوئی تاوان نہیں‘ البتہ اگر جانور کے ساتھ سوار ہو یا اسے چلانے والا یا ہانکنے والا کوئی آدمی ہو تو اس صورت میں جمہور علماء بقدر نقصان تاوان بھرنے کے قائل ہیں۔
اور اگر نقصان رات کو کیا ہو تو امام مالک رحمہ اللہ کے قول کے مطابق بقدر نقصان‘ تاوان جانوروں کے مالک کے ذمے ادا کرنا ہوگا۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ تاوان اس صورت میں ہوگا جب مویشیوں کے مالک نے ان کی حفاظت میں کوتاہی اور کمی کی ہوگی‘ بصورت دیگر نہیں۔
(نووی) 3.دن اور رات کے تاوان میں اس لیے فرق کیا گیا ہے کہ بالعموم باغوں کے مالک دن کے اوقات میں خود حفاظت کرتے ہیں اور مویشیوں کے مالک ان کی حفاظت رات کے اوقات میں کرتے ہیں‘ دن کے وقت زیادہ پروا نہیں کی جاتی‘ لہٰذا جو شخص اس عمومی اور عرفی عادت کے الٹ کرے تو وہ حفاظت کی راہ و رسم سے خارج ہوگا۔
4. سبل السلام میں ہے کہ مالکیہ یہ قید لگاتے ہیں کہ جب مویشیوں کو ان کی مقررہ چراگاہوں میں چرنے کے لیے چھوڑا جائے، پھر وہ کوئی نقصان کر دیں تو مالک پر تاوان نہیں اور اگر انھیں کاشت شدہ زمین میں چھوڑا جائے جہاں چراگاہ نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں دن ہو یا رات مالکان‘ نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1030