Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
18. بَابُ : بَيْعِ الْخِيَارِ
باب: اختیاری خریداری کا بیان۔
حدیث نمبر: 2184
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، الْمِصْرِيَّانِ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَعْرَابِ حِمْلَ خَبَطٍ، فَلَمَّا وَجَبَ الْبَيْعُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْتَرْ"، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: عَمْرَكَ اللَّهَ بَيِّعًا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک بوجھ چارا خریدا، پھر جب بیع مکمل ہو گئی، تو آپ نے اس سے فرمایا: تجھ کو اختیار ہے (بیع کو باقی رکھ یا منسوخ کر دے) تو دیہاتی نے کہا: اللہ آپ کی عمردراز کرے میں بیع کو باقی رکھتا ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 27 (1249)، (تحفة الأشراف: 2834) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ایسی صورت میں جب طرفین بیع کو اختیار کر لیں تو خیار مجلس باقی نہ رہے گا، جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1249)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2184 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2184  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حِمل (گٹھڑی یا گٹھڑ)
سے مراد کسی چیز کی وہ مقدار ہے جو آدمی ایک بار سر پر یا کمر پر اٹھا سکے۔

(2)
  خَبَط سے مراد درختوں کے وہ پتے ہیں جو ڈنڈے وغیرہ سے جھاڑے جاتے ہیں۔
یہ جانورں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

(3)
  کسی چیز کے ڈھیر یا گٹھڑی کو ماپے تولے بغیر خریدنا اور بیچنا جائز ہے۔
کیونکہ وزن یا مقدار کا اندازہ دیکھ کر ہو جاتا ہے۔

(4)
  خیار مجلس کا حق جس طرح خریدنے والے کو حاصل ہوتا ہے اسی طرح بیچنے والے کو بھی حاصل ہوتا ہے۔

(5)
  کسی کو اس کے فائدے کی صورت کا مشورہ دینا مسلمان کی خیر خواہی میں شامل ہے، خاص طور پر جب کہ اسے مسئلہ معلوم نہ ہو۔

(6)
  احسان کرنے والےکے حق میں دعائے خیر کرنا اخلاقی فرض ہے۔

(7)
  یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم 1791، وسنن ابن ماجة بتحقیق محمد محمود حسن نصار، رقم: 2184)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2184