حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا، وَكَانَا جَمِيعًا أَوْ يُخَيِّرَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَإِنْ خَيَّرَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ تَبَايَعَا وَلَمْ يَتْرُكْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا الْبَيْعَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ".
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2181
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سودا طے پا جانےکے بعد جب قیمت ادا کرکے چیز وصول کر لی جائے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن ممکن ہے خریدنے والا محسوس کرے کہ یہ سودا اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ چیز واپس کرنا چاہیے یا بیچنے والا محسوس کرے کہ مجھے یہ چیز نہیں بیچنی چاہیے تھی اور وہ واپس لینا چاہیے تو اس صورت ميں سودا ختم کرکے مال اور رقم کا دوبارہ تبادلہ کر لینا چاہیے۔
(2)
بیچے ہوئے مال کو واپس کر لینا بہت ثواب ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث2199)
(3)
بیع واپس کرنے کا اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک دونوں ایک مجلس میں موجود رہیں۔
(4)
اگر ان کے درمیان کوئی مدت طے پاجائے تو واپس لینے دینے کا حق اس مدت تک ہوگا، مثلاً:
خریدنے والا کہے:
اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو میں تین دن تک واپس کردوں گا۔
یا بیچنے والا کہے:
اگر میں کل شام تک واپس نہ لوں تو بعد میں تم سے واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مجلس سے الگ ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ مدت تک اختیار باقى رہے گا۔
(5)
اگر انہوں نے مجلس میں بیع واپس نہ کی اور نہ بعد میں واپس کرنے کے لیے کوئی مدت متعین ہوئی تو مجلس برخاست ہوتے ہی دونوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2181
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 488
´بیع خیار کا بیان`
«. . . 241- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ (جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 488]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2111، ومسلم 1531/43، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس حدیث میں جدائی سے مراد جسمانی جدائی یعنی تفرق بالا ابدان ہے۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب ابن (عمر رضی اللہ عنہ) کو سودا پسند آ جاتا تو بیچنے والے سے (دورجاکر) جدا ہوجاتے تھے۔ [صحيح بخاري 2107، صحيح مسلم 1531، دارالسلام: 3856]
➋ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے خلاف اہل مدینہ کا اجماع ہے لیکن ایسے نام نہاد اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیر ہ باہر ہیں۔ نیز دیکھئے [التمهيد 9/14]
➌ اس صحیح حدیث کو رد کرتے ہوۓ محمود حسن دیوبندی (اسیر مالٹا) نے کہا:
«و خالف ابوحنيفته فيه الجمهور و كثيراً من الناس من المتقدمين و المتاخرين صنو ارسائل فى ترديد مذهبه فى هذه المسئلة ورجح مولانا شاه ولي الله دهلوي قدس سره فى رسائل مذهب الشافعي من جهته الأحاديث والنصوص و كذلك قال شيخنا مدظله يترجح مذهبه وقال: الحق والانصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب عليان تقليد امامنا ابي حنيفته والله اعلم» ۔
اور اس (مسئلے) میں ابوحنیفہ نے جمہور اور مقتدمین و متاخرین میں سے بہت سوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلے میں ان کے مذہب کی تردید میں رسالے لکھے اور مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ نے رسالوں میں احادیث اور دلائل کی وجہ سے (امام) شافعی کے مذہب کو ترجیح دی اور اسی طرح ہمارے شیخ مدظلہ نے کہا: ان کا مذہب راجح ہے، اور کہا: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم [تقريرترمذي ص36 مطبوعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی] غور کریں کہ تقلید نے ان لوگوں کو حق و انصاف اور دلائل سے کتنا دور کر دیا ہے۔!
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 241
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 692
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب دو آدمی آپس میں سودا کرنے لگیں تو جب تک وہ اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے، یا ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اگر ایک دوسرے کو اختیار دیدے، پھر اس پر سودا طے ہو جائے تو سودا پختہ ہو گیا اور اگر سودا طے کرنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا ہو تو بیع پختہ ہو جائے گی۔“ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 692»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب إذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع، حديث:2112، ومسلم، البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، حديث:1531.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بیوپاری اور سوداگر کو خرید وفروخت کے باقی رکھنے یا توڑنے کا حق دیا گیا ہے۔
2.اختیار یا خیار کے بھی یہی معنی ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو سودا باقی رکھنے یا توڑنے کا حق ہے۔
3.اس کی بہت سی انواع ہیں۔
ان میں سے دو کا بالخصوص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک خیار مجلس جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
دوسری خیار شرط۔
وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کو باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا۔
اگر خریدار اسے واپس کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو بغیر لیت ولعل اور حیل وحجت کے واپس لینا ہو گا۔
اس کے علاوہ دو تین صورتیں مزید یہ ہیں: 1.خِیَارِ عَیْب: خریدنے والا کہے کہ اگر اس میں کوئی نقص وعیب ہوا تو میں اسے واپس کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
2.خِیَارِ رُؤیَتْ: خریدار کہے کہ سودا تو طے ہوا مگر میں اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔
دیکھنے پر اسے یہ سودا منظور نہ ہوا تو بیع منعقد نہ ہوگی۔
3. خِیَارِ تَعَیُّن: خریدار کہے کہ ان میں سے جو چیز یا جو جانور مجھے پسند ہو گا وہ لے لوں گا۔
بہر حال شریعت نے فریقین کے لیے بے شمار آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں تاکہ کسی طرح جھگڑا اور تنازع نہ ہو۔
خریدنے اور فروخت کرنے میں دونوں کی باہمی رضا مندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 692
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4470
´نافع کی حدیث کے الفاظ میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خریدنے اور بیچنے والا جب تک الگ الگ نہ ہو جائیں دونوں کو اپنے ساتھی پر اختیار رہتا ہے، سوائے اس بیع کے جس میں اختیار کی شرط ہو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4470]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے خرید و فروخت کرنے والوں کے اختیار کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بائع اور مشتری، دونوں کو اس وقت تک سودا کرنے یا نہ کرنے کا حاصل ہے جب تک کہ وہ اس مجلس سے الگ نہ ہو جائیں۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جائے گا، تاہم اگر وہ کچھ وقت تک ایک دوسرے کو سوچنے سمجھنے اور سودا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیں تو پھر مقررہ وقت تک اختیار باقی رہے گا۔ وہ وقت گزر جانے کے بعد سودا پکا ہو جائے گا اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔
(2) اس حدیث سے بیع خیار کا، یعنی ایک دوسرے کو یا کسی ایک کا دوسرے کو اختیار دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
(3) بیع خیار سے مراد وہ بیع ہے جس میں دونوں میں سے ہر ایک نے بیع کرتے وقت واپسی کا اختیار ختم کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اگر واپس کرنا ہے تو ابھی کر لو ورنہ واپسی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں مجلس بیع قائم رہنے کے باوجود اختیار نہیں رہے گا۔ بیع خیار کے ایک دوسرے معنیٰ بھی ہیں: وہ بیع جس میں زیادہ مدت (مثلاً: تین دن وغیرہ) تک واپسی کا اختیار رکھ لیا گیا ہو تو ایسی بیع میں مجلس برخاست ہونے کے باوجود مقررہ وقت تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ دونوں مفہوم صحیح ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4470
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4478
´نافع کی حدیث کے الفاظ میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دونوں اپنی بیع کے سلسلے میں اس وقت تک اختیار کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں، سوائے اس کے کہ وہ بیع خیار (اختیاری خرید و فروخت) ہو۔“ نافع کہتے ہیں: چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو دل کو بھا گئی ہو تو صاحب معاملہ سے (فوراً) جدا ہو جاتے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4478]
اردو حاشہ:
”جدا ہو جاتے“ ویسے ایک دوسری روایت میں اس سے روکا گیا ہے، دیکھئے: (سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3456، و سنن النسائي، البیوع، حدیث: 4488) شاید حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں ہو گا۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4478
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3454
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3454]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسے اصطلاحا خیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اوراس کا تعلق بیع کی جگہ سے علیحدہ علیحدہ ہوجانے سے ہے نہ کہ بیع کا موضوع بدلنےسے۔
البتہ اگر کم یا زیادہ کسی متعین مدت تک کےلیے اختیار کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتو الگ با ت ہے۔
ایسی صورت میں متعینہ مدت ہی معتبر ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3454
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1245
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں“ ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی عقد کو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقد سے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔
2؎:
اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا،
یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1245
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:670
670- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”خرید وفروخت کرنے والوں کو سودا ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوں، یا ان دونوں نے سوداہی اختیار کی شرط پر کیا ہو۔ اگر وہ اختیار کی شرط پر سودااختیار کیا گیا ہوگا، تو طے ہوجائے گا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:670]
فائدہ:
خیار کی بہت سی اقسام ہیں مگر ان میں سے ایک قسم کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ خیار مجلس: اس کا مطلب ہے جب تک فریقین اس مقام پر موجود ہیں جہاں بیع ہوئی ہے، ان میں سے ہر ایک کو بیع ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«البيعان بالخيار ما لم يفترقا» [صحيح بخاري: 2079]
بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں۔
امام ابن قیم تمائی فرماتے ہیں:
´´شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں خیار مجلس کو فریقین کے فائدے اور مکمل رضا مندی جو اللہ تعالیٰ نے بیع کے لیے ایک شرط کے طور پر بیان کی ہے کے لیے رکھا ہے، کیونکہ عموماً بیع جلد بازی میں غور و فکر کے بغیر ہی ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ شریعت کاملہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے ایک حد (جب تک دونوں فریق بیع کی جگہ موجود ہیں) مقرر کر دی ہے جس میں دونوں فریق اپنے فیصلے پر غور وفکر اور نظر ثانی کر لیں ``۔ (اعلام الموقعین: 164/3)
صحیح بخاری میں ہے:
«كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار» (رقم الحديث: 2113)
خرید وفروخت کرنے والوں کے درمیان بیع (لازم) نہیں ہوگی یہاں تک وہ جدا ہو جائیں سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو اختیار دے دیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 670
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3855
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی باہمی بیع کر لیں، تو ان میں سے ہر ایک کو بیع کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے، جب تک وہ الگ الگ نہ ہوں اور دونوں اکٹھے ہوں، یا ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے دے، اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا اور اس کے بعد انہوں نے بیع کر لی تو بیع لازم ہو گی، اور اگر بیع کرنے کے بعد دونوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3855]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر دو آدمی کسی چیز کی خرید و فروخت کرتے ہیں،
اور ان کا معاملہ باہمی طے ہو جاتا ہے تو وہ جب تک جس جگہ بیع ہوئی ہے وہیں موجود ہیں،
تو ان دونوں (فروخت کرنے والا اور خریدنے والا)
کو اس سودا کو فسخ کرنے کا (توڑنے والا ختم کرنے کا)
حق حاصل ہے۔
اس کو خیار مجلس کا نام دیا جاتا ہے،
حدیث کے لفظ كَانَا جَمِيْعًا،
مَالَمْ يَتَفَرَّقَا کی توضیح و تفسیر کرتے ہیں کہ تفرق سے مراد،
تَفرق بِالأَبْدْان ہے،
یعنی دونوں اس جگہ سے الگ الگ نہیں ہوئے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا یہی معنی سمجھا ہے اور اس کے دوسرے راوی حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ ہیں،
انہوں نے بھی یہی معنی لیا ہے۔
احناف کا اصول یہ ہے کہ راوی کی رائے اور فہم مقدم ہے،
اسی اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاں تفرق بِالأَبْدَان مراد ہے کیونکہ حضرت ابن عمر سودہ پختہ کرنے کے لیے مجلس بیع سے الگ ہو جاتے تھے۔
نیز حدیث کے الفاظ او يخيرا احدهما الآخر،
ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے،
اور إِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ ان تَبَايَعَا وَلَمْ يَترك وَاحِد مِنْهما البيع،
اگر بیع کے بعد وہ دونوں الگ ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو ختم نہیں کیا،
فَقَد وَجَبَ الْبَيْع،
تو بیع لازم ہو گئی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،
نیز حدیث میں اختیار،
بیع کے بعد دیا گیا ہے،
اور بیع ایجاب و قبول دونوں کے بعد ہوتی ہے،
اس لیے فریقین کو معاملہ بیع،
فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے،
جب تک وہ دونوں اسی جگہ موجود رہیں جہاں سودا طے پایا ہے،
لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور چلایا جائے یا الگ ہو جائے تو فسخ کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
امام شافعی،
امام احمد،
اہل ظاہر اور محدثین کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ (احناف)
امام مالک (مالکیہ)
کے نزدیک،
تفرق سے مراد تَفرق بالأقوال ہے،
یعنی جب بائع (فروخت کرنے والا)
نے کہا،
میں یہ چیز اتنے میں فروخت کرتا ہوں،
تو اب مشتری (خریدار)
کو اختیار ہے۔
وہ اس قول کو قبول کرے یا نہ کرے،
حالانکہ جب تک سودا طے نہ ہوا تو بیع ہوئی ہی نہیں ہے،
پھر اختیار کا کیا مطلب ہے؟ مالکیہ کہتے ہیں تفرق بالأبدان والا معنی،
عمل اہل مدینہ کے خلاف ہے،
تو کیا ابن عمر،
ابو برزہ،
امام زہری،
ابن ابی ذئب سب مدنی نہیں ہیں،
احناف نے اس حدیث کی تین تاویلیں کی ہیں:
(1)
اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جب مجلس میں ایک فریق نے بیع کا معاملہ پیش کیا،
تو جب تک مجلس برقرار رہے،
وہ الگ الگ نہیں ہوتے تو دوسرے فریق کو بیع کے قبول کرنے کا اختیار ہے،
مجلس ختم ہونے کے بعد قبول کرنے کا اختیار ختم ہو جائے،
تو جب تک دوسرے فریق نے سودا قبول ہی نہیں کیا تو یہ بیع کیسے ہو گئی؟ (2)
تفرق بالأبدان سے مراد،
تفرق بالأقوال ہے،
کیونکہ جب سودا طے ہو گیا،
تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن اگر الگ الگ نہ ہوں تو کیا تفرق بالأبدان ہو گا؟ (3)
خیار مجلس سے مراد،
اقالہ ہے،
یعنی جب بیع کا معاملہ طے پا گیا اور اس کے بعد کسی فریق نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا تو دوسرا فریق اگرچہ قانون شریعت کے تحت،
مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے رضا مند ہو جائے،
لیکن اس کو اخلاقی طور پر اس پر راضی ہو جانا چاہیے،
ظاہر ہے یہاں پر ایک فریق کو اختیار نہیں ہے،
کیونکہ وہ دوسرے فریق کی رضا مندی کا پابند ہے،
اس لیے علامہ تقی عثمانی احناف کے تمام دلائل لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ احناف نے اس حدیث کے سلسلہ میں جتنے عذر پیش کیے ہیں،
حقیقت یہ ہے دل ان پر مطمئن نہیں ہے۔
ففي جميع دلائلهم و تاويلاتهم عندي نظر،
ان کے تمام دلائل اور تاویلات میرے نزدیک محل نظر ہیں،
کیونکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے تفرق ابدان اور خیار مجلس مراد لیا ہے۔
(تکملہ فتح الملم:
ج 1 ص 373)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3855
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3856
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بائع اور مشتری دونوں بیع کر لیں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو اپنی بیع کے فسخ کا حق حاصل ہے، جب تک کہ الگ الگ نہ ہوں یا ان کی بیع خیار سے ہوئی ہو، تو جب ان کی بیع خیار سے ہوئی ہے، تو بیع لازم ہو گئی ہے۔ نافع کہتے ہیں، اس بنا پر ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب کسی آدمی سے بیع کرتے اور اس میں اقالہ (واپسی) نہ کرنا چاہتے، تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3856]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں اقالہ سے مراد،
بیع کا فسخ ہے،
کیونکہ اقالہ کا مدار تو فریقین کی رضا مندی پر ہے،
اور یہ اقالہ مجلس کے خاتمہ کے بعد بھی ہو سکتا ہے،
اس لیے اقالہ سے بچنے کے لیے مجلس کو ختم کرنا کافی نہیں ہے،
اور یہ بھی ممکن ہو کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا پتہ نہ ہو کہ اقالہ سے بچنے کے لیے مجلس ختم نہیں کرنی چاہیے اور ایک فریق اقالہ کرنا چاہیے تو دوسرے فریق کو اس پر راضی ہو جانا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3856
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3857
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کی بیع اس وقت تک لازم نہیں ہوتی، جب تک وہ الگ الگ نہ ہو جائیں اِلا یہ کہ بیع خیار پر ہوئی ہو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3857]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
الا بيع الخيار:
کا معنی جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو کہے،
اختر،
ایک چیز کا انتخاب کر لو،
یعنی بیع کو فسخ کر لو یا لازم کر لو،
کیونکہ دوسری احادیث سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے،
ایک حدیث میں گزرا ہے،
ان خير احدهما الآخر،
اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا۔
فتبايعا علی ذالك،
اس پر بیع ہو گئی تو فقد وجب البيع،
بیع لازم ہو گئی۔
دوسری حدیث میں ہے:
اذا كان بيعهما عن خيار،
فقد وجب البيع،
اگر دونوں نے خیار سے بیع کی ہے تو بیع لازم ہو گئی ہے۔
اور احناف نے اس کا یہ معنی لیا ہے کہ بیع خیار شرط پر ہوئی ہو یعنی ایک فریق نے دوسرے کو اختیار دیا ہو کہ تمہیں تین دن تک واپسی کا اختیار ہے،
تو اس صورت میں،
مجلس کے خاتمہ کے بعد بھی مدت مقررہ تک اختیار حاصل ہو گا۔
اور شوافع کے نزدیک جمہور والا معنی ہے کہ اگر مجلس میں اختیار دے دیا گیا ہے اور دوسرے فریق نے بیع کی توثیق کر دی ہے،
تو بیع لازم ہو گئی ہے اور اب خیار مجلس ختم ہو گیا ہے اور بعض نے یہ معنی کیا ہے،
تفرق ابدان کا اختیار اس صورت میں ختم ہو جائے گا،
جب مجلس میں اختیار کو ختم کر دیا گیا ہے،
ایک فریق نے دوسرے کو کہہ دیا ہے،
اب یہ سودا فسخ نہیں ہو سکے گا۔
اگر مجلس میں ایک فریق نے دوسرے کو مجلس کے بعد بھی سودا فسخ کرنے کا اختیار دیا ہے،
جس کو خیار شرط کہتے ہیں تو شوافع اور احناف کے نزدیک اس کی مدت تین دن سے زائد نہیں ہو سکتی۔
امام احمد،
امام ابو یوسف اور امام محمد،
اسحاق کے نزدیک فریقین اپنی مرضی سے جتنی مدت چاہیں مقرر کر سکتے ہیں۔
اگر خیار شرط کی صورت میں مدت مقرر نہیں کی،
تو شوافع اور احناف کے نزدیک بیع باطل ہو گئی،
امام اوزاعی کے نزدیک یہ شرط باطل ہو گئی اور بیع درست ہو گی،
مالکیہ کے نزدیک شئی کی مناسبت سے مدت کی تعیین کر دی جائے گی۔
اور امام احمد اور اسحاق کے نزدیک اختیار ہمیشہ کے لیے حاصل ہو جائے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3857
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2107
2107. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: " خریدو فروخت کرنے والے ہر ایک کو اپنے سودے میں اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہو جائیں یا اس سودے میں خیار شرط ہو۔ " حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو انھیں پسند ہوتی تو اپنے ساتھی سے جلدی جدا ہو جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2107]
حدیث حاشیہ:
یعنی وہاں سے جلد چل دیتے تاکہ فسخ بیع کا احتیار نہ رہے، اس سے صاف نکلتا ہے کہ جدا ہونے سے حدیث میں دونوں کا جدا ہونا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2107
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2111
2111. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بائع اور مشتری دونوں میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہو جائیں الایہ کہ بیع خیار کی ہو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2111]
حدیث حاشیہ:
یعنی جب بائع بیع کے بعد مشتری کو اختیار دے اور وہ کہے میں بیع کو نافذ کرتا ہوں اور وہ بیع اس سے الگ ہے جس میں اختیار کی شرط پہلے ہی لگا دی گئی ہو یعنی جہاں معاملہ ہوا ہے وہاں سے سرک نہ جائیں۔
اگر وہیں رہیں یا دونوں مل کر میلوں چلتے رہیں تو اختیار باقی رہے گا، گو تین دن سے زیادہ مدت گزر جائے، بیع الخیار کی تفسیر جو ہم نے یہاں کی ہے۔
امام نووی نے اسی مطلب کی ترجیح پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پر یقین کیا ہے۔
بعضوں نے یہ معنی کئے ہیں مگر اس بیع میں جس میں اختیار کی شرط ہو، یعنی وہاں سے جدا ہونے سے اختیار باطل نہ ہوگا بلکہ مدت مقررہ تک اختیار رہے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2111
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2107
2107. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: " خریدو فروخت کرنے والے ہر ایک کو اپنے سودے میں اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہو جائیں یا اس سودے میں خیار شرط ہو۔ " حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو انھیں پسند ہوتی تو اپنے ساتھی سے جلدی جدا ہو جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2107]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مدت خیار بیان کرنا چاہتے ہیں مگر حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ ضرورت کے پیش نظر اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے، مثلاً:
کپڑا وغیرہ خریدا ہے تو ایک دن،جانور وغیرہ ہے تو دو دن اور اگر گھر خریدا ہے تو ایک ہفتے کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔
بیچنے اور خریدنے والا جتنی مدت مقرر کرلیں یہ ان کی صوابدید پر موقف ہے۔
(2)
بعض حضرات خیار شرط میں تین دن کی مدت مقرر کرتے ہیں کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
\"خیار کی مدت تین دن ہے\"(السنن الکبریٰ للبیھقی: 6/274)
لیکن یہ حدیث مذکورہ حدیث کا تتمہ نہیں ہے۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ حدیث میں اس مدت خیار کی کوئی حد مقرر نہیں، لہٰذا اس کی حد بندی کرنا درست نہیں۔
فروخت کردہ چیز کے پیش نظر اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے۔
(فتح الباری: 4/413)
والله اعلم. w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2109
2109. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں یاان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ دے کہ تجھے اختیار ہے۔ "بعض اوقات راوی نے یہ الفاظ بیان کیے: "یا بیع خیار ہو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2109]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب روایت میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے تو اسے مطلق رکھا جائے گا،کسی مدت کی تعین جائز نہیں،اس سے ان لوگوں کی تائید ہوتی ہے جو خیار کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کرتے۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ خیار کی مدت تین دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
ان کے نزدیک خیار کی مدت تین دن سے زیادہ ہویا کوئی مدت مقرر ہی نہ کی جائے تو بیع باطل ہوجاتی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیع جائز ہے اور جتنی مدت ٹھہرائی جائے اتنی مدت تک اختیار رہے گا۔
چونکہ اس مسئلے میں فقہائے کرام کا اختلاف تھا،اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جزم ووثوق کے ساتھ عنوان بندی نہیں کی بلکہ استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے۔
بہرحال جب بیع میں خیار کا وقت معین نہ کیا جائے تو بیع لازم ہوجاتی ہے اور اسے نسخ نہیں کیا جا سکتا بلکہ بشرطیکہ اس میں کوئی عیب ظاہر نہ ہوجائے جسے پہلے سے نہ بتایا گیا ہو۔
(فتح الباری: 4/414)
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2109
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2111
2111. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بائع اور مشتری دونوں میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہو جائیں الایہ کہ بیع خیار کی ہو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2111]
حدیث حاشیہ:
(1)
بیع خیار سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کو اختیار دے اور وہ کہے کہ میں بیع کو نافذ کرتا ہوں، فقہاء نے اس کے متعلق تین اقوال نقل کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو اختیار ہے سوائے اس بیع کے جس بیع میں عقد مکمل کرنے کا اختیار ہو کیونکہ اس سے عقد بیع لازم ہوجاتا ہے اگرچہ وہ اس کے بعد مجلس سے جدا نہ ہوں۔
٭دونوں کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں مگر وہ بیع جس میں خیار کی شرط لگائی گئی ہو،یعنی ایک یا دودن کا اختیار دیا گیا ہو۔
یہ اختیار مدت ختم ہونے تک باقی رہتا ہے اگرچہ وہ جدا ہوجائیں۔
٭وہ بیع جس میں یہ شرط طے کی گئی ہوکہ مجلس میں کسی کو اختیار نہیں ہے تو اس صورت میں نفس عقد سے بیع مستحکم ہوجاتی ہے۔
پھر دونوں میں سے کسی کو اختیار باقی نہیں رہتا۔
(عمدۃ القاری: 8/387)
لیکن یہ آخری صورت نص حدیث سے ٹکراتی ہے،لہٰذا ہمارے نزدیک یہ آخری معنی محل نظر ہیں۔
والله اعلم. (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خیار مجلس کو ثابت کیا ہے اور اس سے مراد تفرق ابدان ہے۔
حضرت ابن عمر اور حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہم کا یہی مسلک ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے اونٹ خریدا۔
اس کی قیمت سامنے رکھ کر اسے کہا:
تجھے اب بھی اختیار ہے قیمت قبول کرلو یا اونٹ واپس لے لو۔
(فتح الباری: 4/415)
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2111
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2112
2112. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب دو آدمی آپس میں بیع کریں تو جب تک دونوں جدا نہ ہو اور دونوں اکٹھےرہیں، ان میں سے ہرایک کو بیع کے انعقاداور فسخ کا اختیار ہے۔ ہاں اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا اور اسی طریقے پر انھوں نے بیع کا معاملہ کیا تو بیع واجب ہوگی۔ اور اگر وہ بیع کرنے کے بعد جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع واجب ہو جائے گی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2112]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بائع اور مشتری جب تک ایک جگہ ہیں انھیں بیع کے انعقاد اور فسخ کا اختیار رہتا ہے۔
ہاں،اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو اختیار دےدیا کہ بیع پکی کرنے کا تجھے اختیار ہے۔
جب اس نے بیع کو اختیار کرلیا تو بیع پختہ ہوجائے گی اگرچہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔
اور اگر وہ خاموش رہا اور ہاں یا نہیں میں جواب نہ دیا تو بھی اس کا اختیار ختم نہیں ہوگا،البتہ اختیار دینے والے کا اختیار ختم ہوجائے گا۔
دوسری صورت بیع کے پختہ ہونے کی یہ ہے کہ عقد بیع کے بعد دونوں الگ الگ ہوگئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع پختہ ہوجائے گی۔
اس صورت میں خیار عیب باقی رہے گا۔
(2)
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث خیار مجلس کے ثبوت کے لیے بین دلیل ہے اور اس کے علاوہ ہر تاویل کو باطل قرار دیتی ہے،نیز اس میں وضاحت ہے کہ جدائی سے مراد اقوال کی نہیں بلکہ ابدان کی جدائی ہے۔
ابدان کی علیحدگی ہی اختیار کو ختم کرتی ہے۔
(فتح الباری: 4/421)
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2112
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2113
2113. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بائع اور مشتری میں کوئی بیع نہیں ہوگی جب تک دونوں جدانہ ہوں، ہاں وہ بیع مکمل ہوگی جس میں خیار ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2113]
حدیث حاشیہ:
جب بائع (بیچنے والا)
اور مشتری(خریدار)
کسی بیع کا معاملہ کریں تو جب تک وہ مجلس عقد میں موجود رہیں گے بیع پختہ نہیں ہوگی ہاں،جب مجلس بر خاست ہوجائے تو بیع لازم سمجھی جائے گی۔
اگر ان میں سے کسی کو دوران مجلس میں بیع پختہ یا فسخ کرنے کا اختیار دے دیا جائے اور وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرکے دوران مجلس ہی میں بیع کو پختہ یا فسخ کردے تو اسے یہ حق حاصل ہے،اس کےلیے مجلس کی برخاستگی ضروری نہیں ہے۔
یہ اختیار بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
اس اختیار کو مشتری کے ساتھ خاص کرنا اور بائع کو اس الگ رکھنا صحیح نہیں کیونکہ حدیث کے الفاظ اس تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2113