صحيح البخاري
كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
کتاب: لیلۃ القدر کا بیان
3. بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ:
باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔
حدیث نمبر: 2020
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَيَقُولُ:" تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2020 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2020
حدیث حاشیہ:
(1)
مختلف احادیث میں شب قدر کے متعلق کچھ نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں لیکن ان نشانیوں کا تعلق شب قدر کے گزرنے کے بعد سے ہے مگر یہ نشانیاں امکان کے طور پر ہیں بطور شرط کے نہیں، مثلاً:
ایک نشانی بارش کا ہونا بھی بتایا گیا ہے مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی، حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق اور یقینی ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے شب قدر کا ادراک بھی ہوا لیکن اس نے اس رات کوئی امر بطور خوارق عادت نہیں دیکھا۔
اس بنا پر ہمارا اعتقاد ہے کہ لیلۃ القدر کے پانے کے لیے خرق عادت چیز کا پانا یا دیکھنا ضروری نہیں۔
ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ شب قدر وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو کوئی خرق عادت امر دیکھے، اللہ کا فضل و کرم بہت وسیع ہے وہ اس طرح کے کاموں کا محتاج نہیں۔
(2)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ شب قدر ہے تو میں کیا پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
یہ دعا پڑھو:
(اللهم إنكَ عفو تحبُ العفوَ فاعفُ عَنِي)
”اے اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے۔
تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے۔
“ (مسندأحمد: 171/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2020
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 792
´شب قدر کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 792]
اردو حاشہ:
1؎:
شب قدر کی تعیین کے سلسلہ میں علماء کے چالیس سے زائد اقوال منقول ہیں،
ان میں سے راجح قول یہی ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے بغیر تعیین کے کوئی رات ہے،
بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رات آپ کو بتا دی گئی تھی لیکن پھر بھلا دی گئی،
اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 792
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2776
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو تلاش کرو، رمضان کے آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں۔“ ابن نمیر نے ”الْتَمِسُوهَا“ کہا اور وکیع نے ”تَحَرَّوُ “ کہا- [صحيح مسلم، حديث نمبر:2776]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
التمسوا،
تحروا:
دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2776
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2017
2017. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2017]
حدیث حاشیہ:
(1)
آخری عشرے کی طاق راتیں یہ ہیں: 21، 23، 25، 27، 29۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق شب قدر عموماً ان راتوں میں ہوتی ہے لیکن اس کی تعیین نہیں ہے۔
اس کی تعیین نہ ہونے میں بھی ہماری ہی بھلائی ہے کہ ہم ان راتوں میں اللہ کی عبادت کریں۔
اگر ہم نے ان راتوں میں عبادت کی لیکن شب قدر کا احساس یا ادراک نہ بھی ہوا تو بھی ہم اس کے ثواب اور اس کی خیروبرکت سے محروم نہیں ہوں گے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شب قدر رمضان ہی میں ہوتی ہے، پھر اس کا امکان آخری عشرے میں ہے، اس کے بعد آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کیا جائے لیکن اس کا تعیین کسی خاص تاریخ سے نہیں کیا جا سکتا۔
اس سلسلے میں آنے والی جملہ احادیث سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 330/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2017