Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى الْمَكَاسِبِ
باب: روزی کمانے کی ترغیب۔
حدیث نمبر: 2141
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَاءٍ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُنَا: نَرَاكَ الْيَوْمَ طَيِّبَ النَّفْسِ، فَقَالَ:" أَجَلْ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ" ثُمَّ أَفَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى، فَقَالَ:" لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ".
عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں اچانک تشریف لے آئے، آپ کے سر مبارک پر پانی کا اثر تھا، ہم میں سے ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: آپ کو ہم آج بہت خوش دل پا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، بحمداللہ خوش ہوں، پھر لوگوں نے مالداری کا ذکر چھیڑ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15606، ومصباح الزجاجة: 756)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/372، 381) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: صحت اور خوش دلی کی نعمت تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اگر مال لاکھوں کروڑوں ہو، لیکن صحت اور خوش دلی و اطمینان نفس نہ ہو تو سب بیکار ہے، یہ صحت اور طبیعت کی خوشی اللہ تعالی کی طرف سے ہے، جس بندے کو اللہ چاہتا ہے ان نعمتوں کو عطا کرتا ہے، یا اللہ ہم کو بھی ہمیشہ صحت و عافیت اور خوش دلی اور اطمینان قلب کی نعمت میں رکھ۔ آمین۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2141 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2141  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دولت بذات خود کوئی بری جیز نہیں، اس کے حصول کا طریقہ اور اس کو جائز یا ناجائز مقام پر خرچ کرنا اسے برا بناتا ہے۔

(2)
  اللہ سے ڈرنے والا نیک آدمی روزی حلال طریقے سے کماتا ہے اور نیکی کے کاموں میں اور جائز ضروریات پوری کرنے میں خرچ کرتا ہے۔
اس طرح اسے کمانے میں بھی ثواب ملتا ہے اور خرچ کرنے میں بھی۔
ایسے آدمی کے لیے دولت واقعی ایک عظیم نعمت ہے۔

(3)
  فاسق آدمی روزی کمانے میں حلال حرام کی تمیز نہیں کرتا، اور خر چ کرتے وقت فخر و ریا، یا غیر ضروری عیش و عشرت میں خرچ کرتا ہے۔
اس طرح اس کے لیے اس دولت کا حصول بھی گناہ کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اس کا خرچ بھی گناہ میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔
ایسے آدمی کے لیے دولت ایک آزمائش بلکہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
آمین۔

(4)
  صحت دولت سے بڑی نعمت ہے۔
صحت کی حالت میں دولت کم ہونے کے باوجود نیکی کے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔

(5)
اللہ کی نعمت پر خوش ہونا اور اس کا شکر ادا کرنا تقویٰ اور زہد کے منافی نہیں۔

(6)
  مومن کو خوش و خرم رہنا چاہیے۔
مسلمان بھائی کو خندہ پیشانی سے ملنا بھی معمولی نیکی نہیں۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، البر والصلة، باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء، حدیث: 2626)

(7)
جو نعمتیں ہمیں حاصل نہیں، ان کے نہ ہونے پر افسوس کرنے کی بجائے ان نعمتوں پر توجہ کرنی چاہیے جو حاصل ہیں تا کہ دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہو اور ناشکری جیسے برے عمل سے محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ﴾ (الضحیٰ، 11: 93)
اور آپ اپنے رب کی نعمت کا ذکر کرتے رہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2141