حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي رَمَضَانَ الْعَشْرَ الَّتِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ، فَإِذَا كَانَ حِينَ يُمْسِي مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً تَمْضِي، وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، رَجَعَ إِلَى مَسْكَنِهِ، وَرَجَعَ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ، وَأَنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَمَرَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ، ثُمَّ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ، وَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، فَابْتَغُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وَابْتَغُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَاسْتَهَلَّتِ السَّمَاءُ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ فَأَمْطَرَتْ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، فَبَصُرَتْ عَيْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، انْصَرَفَ مِنَ الصُّبْحِ، وَوَجْهُهُ مُمْتَلِئٌ طِينًا وَمَاءً".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2018
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق اس سال اکیسویں تاریخ کو شب قدر تھی۔
(2)
دیگر احادیث سے ستائیسویں رات کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ شب قدر ہے۔
عین ممکن ہے کہ جس سال صحابۂ کرام ؓ کو اس رات کا ادراک ہوا اس سال وہی شب قدر تھی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی رات شب قدر ہو گی۔
اس رات کی تعیین کے متعلق علمائے امت کے بہت سے اقوال ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں 46 اقوال نقل فرمائے ہیں۔
آخر میں اپنا فیصلہ بایں الفاظ دیا ہے:
ان سب میں ترجیح اس قول کو ہے کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے۔
شوافع نے اکیسویں رات کو شب قدر قرار دیا ہے اور جمہور ستائیسویں رات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جا سکتا، نیز یہ ایک پوشیدہ رات ہے اور اس رات کے مخفی ہونے میں حکمت یہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جائے۔
اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اسی رات پر ہی اکتفا کر لیا جاتا۔
(فتح الباري: 338/4)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2018
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1357
´سلام پھیرنے کے بعد پیشانی نہ پوچھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آ جاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آ جاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آ جاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا: ”میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں“، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1357]
1357۔ اردو حاشیہ:
➊ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر معین رات میں بتلائی گئی تھی مگر دوسری روایات کے مطابق بعض لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے آپ کے ذہن سے نکل گئی۔ آپ کو صرف نشانی یاد رہ گئی کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ نشانی صرف اس سال کے لیے تھی، نہ کہ ہمیشہ کے لیے کیونکہ آپ نے بعض دوسرے مواقع پر اور نشانیاں بھی بتائی ہیں، نیز یہ رات ہر سال بدلتی رہتی ہے مگر آخری عشرے کی طاق راتوں ہی میں۔
➋ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ماتھا وغیرہ پونچھ لینا چاہیے تاکہ سجدے میں اگر کوئی تنکا یا مٹی لگی ہو تو صاف ہو جائے۔ اس طرح ریاکاری کا خطرہ نہیں رہے گا۔ مندرجہ بالا روایات میں تو ابھی آپ نے سلام پھیرا ہی تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1357
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1766
´لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شب قدر سال کی سب سے افضل رات ہے اس کی ایک رات کی عبا دت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے (القدر: 97/3)
(2)
شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اعتکاف کرنا سنت ہے البتہ جو شخص اعتکاف نہ کر سکے اسے بھی راتیں عبادت میں گزارنے کی کو شش کرنی چاہیے
(3)
شب قدر بھلائے جا نے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ با ت یا د نہ رہی کہ اس سال کون سی رات شب قدر ہے ہر سال اسی رات میں ہونا ضروری نہیں۔
(4)
شب قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لئے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پا نچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیں تاکہ شب قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے
(5)
اگرچہ علمائے کرام نے شب قدر کی بعض علامتیں بیان کی ہیں لیکن ثواب کا دارومدار اس چیز پر نہیں کہ عبادت کرنے والے کو یہ رات معلوم ہوئی یا نہیںں اس لئے اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں فلاں فلاں علامت کا احسا س نہیں ہوا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1766
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2774
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں درمیانی عشرہ کا شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا۔ جبکہ ابھی آپﷺ کو اس کا علم نہیں دیا گیا تھا جب یہ دن رات ختم ہو گئے تو آپﷺ نے خیموں کو اکھاڑنے کا حکم دیا پھر آپﷺ کو بتایا گیا کہ وہ آخری عشرے میں ہے تو آپﷺ نے دوبارہ خیمہ لگانے کا حکم دیا پھر لوگوں کے سامنے آئے اور فرمایا: ”اے لوگو! شب قدر میرے لیے بیان کر دی گئی تھی اور میں تمھیں بتانے کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2774]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آخری عشرے کی راتوں کا شمار اگر ماہ کے آخری طرف سے کیا جائے اور مہینہ تیس کا ہوتو جو تفسیر ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے وہ درست ہے،
لیکن اگرآغاز،
آخری عشرہ کے آغاز سے کیا جائے تو مراد اکیسویں،
تئیسویں،
پچیسویں ہو گا اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی رو سے اس سال شب قدر اکیسویں تھی اور آپﷺ نے حکم بھی یہی دیا ہے کہ شب قدر طاق راتوں میں تلاش کرو،
اسی طرح عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی رو سے یہ رات تئیسویں تھی،
اس لیے ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا یہ معنی کرنا ہو گا نویں کے بعد والی یعنی اکیسویں،
ساتویں کے بعد والی تھی تئیسویں،
پانچویں کے بعد والی تھی پچیسویں وگرنہ بائیسویں،
چوبیسویں،
اور چھبیسویں تو طاق راتیں نہیں ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2774
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 813
813. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ”جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:813]
حدیث حاشیہ:
کہ میں اس شب پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔
ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ کیا۔
حمیدی نے اس حدیث سے دلیل لی کہ پیشانی اور ناک میں اگر مٹی لگ جائے تو نماز میں نہ پونچھے۔
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین تر ہونے کے باوجود ناک زمین پر لگائی اور کیچڑ کی کچھ پرواہ نہ کی۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 813
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:813
813. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ”جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:813]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا یہ طویل حدیث بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کیچڑ آلود ہونے کے باوجود اپنی ناک کو زمین پر لگایا ہے اور کیچڑ وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ناک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں پہلے عنوان میں کچھ عموم تھا، اس باب میں عمومیت کو خاص کر دیا گیا ہے۔
گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ناک پر سجدہ کرنا امر مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عذر معقول کے باوجود اسے ترک نہیں کیا بلکہ ناک پر سجدہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔
جو حضرات اس حدیث کی بنا پر ناک پر سجدہ کرنے کو کافی خیال کرتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں کیونکہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوران سجدہ میں پیشانی اور ناک کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔
اگر اس میں کچھ رخصت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کم از کم اپنی پیشانی اور ناک کو کیچڑ سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں نمازی کی پیشانی پر زمین کی گردوغبار لگ جائے تو نماز ہی میں اسے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 386/2) (3)
اس حدیث کے متعلقہ دیگر مباحث کو ہم کتاب فضل لیلة القدر (حدیث: 2016)
میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 813
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2016
2016. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا تو آپ بیسویں تاریخ کی صبح (اعتکاف گاہ سے) باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ”مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی تھی۔ مگر مجھے بھلادی گئی۔“ یا فرمایا: ”میں ازخود بھول گیا۔ لہٰذا اب تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں ایسا دیکھا گویا کیچڑمیں سجدہ کر رہا ہوں۔ لہٰذا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ واپس لوٹ آئے (اور اعتکاف کرے)۔“ چنانچہ ہم واپس آگئے اور اس وقت آسمان پر بادل کا نشان تک نہ تھا لیکن اچانک بادل امڈ آیا اور اتنا برسا کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور وہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کھڑی کی گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کے نشانات دیکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2016]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب قدر کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، آپ کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا:
آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہے، پھر آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا تو دوبارہ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آ گئے اور کہا:
آپ جس کے متلاشی ہیں وہ اس کے آگے ہے، آخر کار آپ نے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا پروگرام بنایا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 813) (2)
صحیح بخاری کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیسویں تاریخ کی صبح کو برآمد ہوئے اور اسی وقت آپ نے خطبہ دیا، اس کے بعد اکیسویں رات سے اپنے اعتکاف کا آغاز کیا لیکن مؤطا امام مالک کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکیسویں شب کی صبح کو باہر تشریف لائے اور خطبہ دیا، پھر آپ نے بائیسویں رات کو آخری عشرے کے اعتکاف کا آغاز کیا۔
(الموطأ للإمام مالك، الاعتکاف، حدیث: 715)
امام مالک کی روایت مرجوح ہے کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب بیسویں رات گزر گئی اور اکیسویں کی آمد آمد تھی تو اس وقت آپ اپنی اعتکاف گاہ میں واپس آ گئے، اس موقف کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص میرے ہمراہ معتکف تھا اسے چاہیے کہ وہ لوٹ آئے اور میرے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔
“ اور آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔
اس بنا پر امام مالک کی روایت مرجوح ہے۔
(فتح الباري: 327/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2016
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2027
2027. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ آپ نے ایک سال اعتکاف کیا، جب اکیسویں رات آئی اور یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ اعتکاف سے باہر ہوتے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارے کیونکہ مجھے اس رات شب قدر دکھائی گئی پھر اسے میرے ذہن سے محور کردیا گیا، چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اکیسویں کی صبح پانی اور مٹی میں سجدہ کرتا ہوں۔ اس لیے تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ خاص طور پر ہر طاق رات میں تلاش کرو۔“ واقعہ یہ ہے کہ اس رات بادل برسا اور مسجد چونکہ کھجور کی شاخوں سے تھی، اس لیے وہ بھی بہہ پڑی۔ میری آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اکیسویں رات کی صبح آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا نشان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2027]
حدیث حاشیہ:
شب قدر کی تعیین کے متعلق بہت اختلاف ہے۔
اس حدیث میں اکیسویں رات کا ذکر ہے۔
ممکن ہے اس سال اکیسویں رات کو شب قدر ہو لیکن ہمیشہ کے لیے اکیسویں رات کو شب قدر کا آنا اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
بہرحال آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے حتمی اور یقینی طور پر اس رات کا تعین نہیں فرمایا۔
بہرحال امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے صرف اتنا مقصد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا تھا اور حدیث میں مذکور تمام واقعات مسجد میں پیش آئے تھے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2027
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2036
2036. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے دریافت کیا: کیا آپ نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو شب قدر کا ذکر کرتے سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: ہاں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ ہم بیسویں رمضان کی صبح کو اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بیسویں کی صبح خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛ ”مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر اسے بھلا دیاگیا، اس لیے تم اسے آخری عشرے کی طاق ر اتوں میں تلاش کرو۔ چونکہ میں نے(خواب میں) دیکھا ہے کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، اس لیے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف کیا تھا وہ واپس اپنے معتکف میں آجائے۔“ لوگ یہ سن کر مسجد میں واپس آگئے۔ ہم نے آسمان پر ذرہ بھر بھی بادل نہ دیکھے تھے کہ اچانک تھوڑا سا بادل آیا اور وہ خوب برسا۔ اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے کیچڑ اور پانی میں سجدہ کی حتیٰ کہ میں نے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2036]
حدیث حاشیہ:
امام مالک نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو بایں الفاظ ذکر کیا ہے:
ہم ایک سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف میں تھے، جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ اعتکاف گاہ سے نکلے تھے۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2018)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
اکیسویں رات کی صبح سے مراد بیسویں دن کی صبح ہے، یعنی بیسویں روزے کی صبح جس کے بعد آنے والی رات اکیسویں تھی۔
بعض اوقات کسی چیز کے ماقبل کو اس کی طرف مضاف کر دیا جاتا ہے۔
کلام عرب میں یہ اسلوب بھی مستعمل ہے۔
(فتح الباري: 356/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2036
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2040
2040. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا۔ جب بیسویں کی صبح ہوئی تو ہم نے اپنا سامان وغیرہ (گھروں میں) منتقل کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”جواعتکاف میں تھا وہ اپنی جائے اعتکاف میں واپس چلا جائے۔ اس لیے کہ میں نے رات کو خواب دیکھا ہے۔ اس خواب میں خود پانی اورکیچڑ میں سجدہ کرتا ہوں۔“ جب آپ ﷺ اپنے معتکف میں واپس چلے گئے۔ تو ایک بادل نمودار ہوا اور خوب بارش ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!اسی دن کے آخری حصے میں بادل آیا۔ چونکہ مسجد کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی اس لیے میں نے آپ کی ناک اور پیشانی پر پانی اور کیچڑ کے نشانات دیکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2040]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا، پھر جب بھی اعتکاف کے لیے آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ وہ رات تو آخری عشرے میں ہے، لہذا تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے وہ (آخری عشرے میں)
اعتکاف کرے۔
“ اس کے بعد لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2769(1167) (2)
زیادہ سے زیادہ یا کم از کم مدتِ اعتکاف کی کوئی حد نہیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ رات کے اعتکاف کے ساتھ دن کا اعتکاف کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی ضروری نہیں، تاہم جو یہ کہا جاتا ہے کہ نماز پڑھنے کے لیے آئیں تو اعتکاف کی نیت کر لیں، اس کی کوئی اصل نہیں۔
یہ بے بنیاد بات ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے:
جس نے رات کا اعتکاف کرنا ہے وہ غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف شروع کرے اور طلوع فجر تک اسے جاری رکھے۔
جس نے صرف دن کا اعتکاف کرنا ہے وہ طلوع فجر سے پہلے اس کا آغاز کرے اور غروب آفتاب کے بعد اسے ختم کرے اور جس نے رات اور دن دونوں کا اعتکاف کرنا ہو اسے چاہیے کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے اس کا آغاز کرے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد وہاں سے نکلے۔
(فتح الباري: 358/4)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2040