صحيح البخاري
كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ
کتاب: نماز تراویح پڑھنے کا بیان
1. بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:
باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2010
وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ:إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ".
اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2010 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2010
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اس کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں تھا، وہ اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا فرض ہو جائے اور لوگ اس سے عاجز آ جائیں۔
بعد ازاں جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وجوب کا اندیشہ نہ رہا تو باجماعت تراویح کا اہتمام کر دیا گیا۔
حضرت عمر ؓ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنایا تھا، اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
(2)
یاد رہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس فعل کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا کہ ان کے زمانے میں نماز تراویح اس طرح نہیں پڑھی جاتی تھی۔
اس اعتبار سے ان کے عہد خلافت میں یقینا یہ نیا کام تھا، لیکن فی الحقیقت یہ کام رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کیا جا چکا تھا۔
اسے بدعت کہنے کی یہ ہرگز وجہ نہ تھی کہ حضرت عمر ؓ بدعت کی تقسیم سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں:
ایک بدعت حسنہ، ایک بدعت سیئہ، جیسا کہ آج بعض حضرات کا موقف ہے۔
شریعت کی نظر میں ہر بدعت ہی گمراہی ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد بدعت لغوی ہے شرعی نہیں کیونکہ لغت میں بدعت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کی ابتدا پہلی مرتبہ کی گئی ہو جبکہ شرعی بدعت یہ ہے کہ ہر ایسا کام جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔
(3)
واضح رہے کہ اس روایت میں رکعات تراویح کی تعداد بیان نہیں ہوئی، چنانچہ حضرت امام مالک ؓ نے اس کی تعداد بایں الفاظ بیان کی ہے، حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو نماز تراویح کے لیے تعینات فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔
(الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك: 105/1)
امام مالک ؒ کے ساتھ یحییٰ بن سعید القطان اور امام عبدالعزیز بن محمد بھی اسی تعداد کو بیان کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
مزید تفصیل کے لیے مرعاۃ المفاتیح (2/233)
کا مطالعہ مفید رہے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2010