Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
61. بَابُ : الْغَيْلِ
باب: مدت رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2012
حدثنا هشام بن عمار حدثنا يحيى بن حمزة عن عمرو بن مهاجر أنه سمع أباه المهاجر بن أبي مسلم يحدث عن أسماء بنت يزيد بن السكن وكانت مولاته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تقتلوا أولادكم سرا فوالذي نفسي بيده إن الغيل ليدرك الفارس على ظهر فرسه حتى يصرعه» .
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اپنی اولاد کو خفیہ طور پر قتل نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے «غیل» سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے گرا دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطب 16 (3881)، (تحفة الأشراف: 15777)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/453، 45، 458) (حسن) (المشکاة و تراجع الألبانی: رقم: 397 و صحیح ابن ماجہ: 1648)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3881)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2012 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2012  
اردو حاشہ:
فائدہ:
گھوڑے سے گرانے کا مطلب یہ ہے کہ غیلہ کی وجہ سے حاصل ہونے والی کمزوری کا اثر زندگی بھر قائم رہتا ہے حتی کہ جب ایسا بچہ جوان ہوکر شہسوار بن جاتا ہے، تب بھی وہ اس سوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا جسے بچپن میں یہ صورت حال پیش نہیں آئی، تاہم یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس قدر احتیاط ضروری نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2012   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3881  
´رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟`
اسماء بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کرو کیونکہ رضاعت کے دنوں میں مجامعت شہسوار کو پاتی ہے تو اسے اس کے گھوڑے سے گرا دیتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3881]
فوائد ومسائل:
یہ رویت ضعیف ہے۔
اس کے بالمقابل درجِ ذیل حدیث صحیح ہے۔
یعنی یہ اثر ہونا کو ئی ضروری نہیں، اس لیئے شرعاَ اس کی کو ئی ممانعت نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3881