Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
69. بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ
باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2005
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصُومُوهُ أَنْتُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمیس نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن کو یہودی عید کا دن سمجھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2005 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2005  
حدیث حاشیہ:
مسند احمد میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ " صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا " یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کے لیے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ اور ملا لو۔
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ عَاشُورَاءُ مَعْدُولٌ عَنْ عَاشِرَةٍ لِلْمُبَالَغَةِ وَالتَّعْظِيمِ وَهُوَ فِي الْأَصْلِ صِفَةٌ لِلَّيْلَةِ الْعَاشِرَةِ لِأَنَّهُ مَأْخُوذٌ مِنَ الْعَشْرِ الَّذِي هُوَ اسْمُ الْعَقْدِ وَالْيَوْمُ مُضَافٌ إِلَيْهَا فَإِذا قِيلَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَكَأَنَّهُ قِيلَ يَوْمُ اللَّيْلَةِ الْعَاشِرَةِ إِلَّا أَنَّهُمْ لَمَّا عَدَلُوا بِهِ عَنِ الصِّفَةِ غَلَبَتْ عَلَيْهِ الِاسْمِيَّةُ فَاسْتَغْنَوْا عَنِ الْمَوْصُوفِ فَحَذَفُوا اللَّيْلَةَ فَصَارَ هَذَا اللَّفْظُ عَلَمًا عَلَى الْيَوْمِ الْعَاشِرِ (فتح)
یعنی قرطبی نے کہا کہ لفظ عاشورا مبالغہ اور تعظیم کے لیے ہے جو لفظ عاشرہ سے معدول ہے جب بھی لفظ عاشوراءبولا جائے اس سے محرم کی دسویں تاریخ کی رات مراد ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2005   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3942  
3942. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3942]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری کا ذکر ہے۔
باب کا مطلب اسی سے نکلا۔
بعد میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھے اسے چاہیے کہ یہودیوں کی مخالفت کے لئے اس میں نویں یا گیارہویں تاریخ کے دن یعنی ایک روزہ اور بھی رکھ لے۔
اب یہ روزہ رکھنا سنت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3942