سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
50. بَابُ : حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ
باب: عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1981
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ الْبَهِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ وَهِيَ غَضْبَى، ثُمّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دُونَكِ فَانْتَصِرِي، فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا"، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ.
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا میرے گھر میں بغیر اجازت کے آ گئیں، وہ غصہ میں تھیں، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے وا کر دے؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں، میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا“ تو میں ان کی طرف پلٹی، اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16362، ومصباح الزجاجة: 704)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/93) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی حسین و جمیل اور صاحب حسب و نسب خاتون تھیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں انہی کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی برابری کا دعوی تھا، وہ کہتی تھیں: میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، وہ غصہ میں اس وجہ سے تھیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ زیادہ تھی، اور وہ آپ سے شکایت کر رہی تھیں، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو انہوں نے حقارتاً «بُنَيَّةُ» (جو تصغیر ہے بنت کی) کہا یعنی چھوٹی لڑکی، چھوکری، آپ تو عائشہ کے شیدائی اور ان پر فریفتہ ہیں، دوسری بیویوں کی آپ کو فکر ہی نہیں ہے، نہ کسی کا آپ کو خیال ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی قمیص الٹی اور بانہہ کھولی، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب دینا اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کا ہار جانا جو ناحق شکایت کرتی تھیں، اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ کھل اٹھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”تم نہیں جانتی ہو یہ ابوبکر کی بیٹی ہے“۔ سوکنوں کی یہ وقتی غیرت والی لڑائی عائلی زندگی کا ایک خوش کن لازمہ ہے، اس میں شوہر کی عقلمندی اور اس کے حلم و صبر کا امتحان بھی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1981 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1981
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔
ان کی والد ہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب تھا۔ (تھذیب التہذیب، از حافظ ابن حجر، ترجمہ زینب بنت جحش)
اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کا نکاح وحی کے ذریعے سے کردیا تھا۔
دنیا میں ايجاب و قبول کی ضرورت نہیں پڑی۔ دیکھیے: (سورۃ الأحزاب، آیت: 37)
(2)
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے غصے کا اظہار ان فطری جذبات کی بنا پر تھا جو ایک سوکن کو دوسری سے ہو سکتے ہیں، اسی لیے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ”بنیة“ (چھوٹی سی بیٹی۔
بچی)
کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جواب دینے کی اجازت دینا انصاف کی بنا پر تھا، اس لیے حضرت عائشہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہما کو خاموش کرادیا تو نبیﷺ کو خوشی ہوئی۔
عورتوں کی معمولی باتوں اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔
یا مناسب انداز سےمطمئن کردینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1981