Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
38. بَابُ : لَبَنِ الْفَحْلِ
باب: دودھ مرد کی طرف سے ہے۔
حدیث نمبر: 1949
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ عَمُّكِ"، فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ:" إِنَّهُ عَمُّكِ، فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/النکاح 1 (1445)، سنن الترمذی/الرضاع 2 (1148)، (تحفة الأشراف: 16982) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1949 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1949  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعی رشتے جس طرح دودھ پلانے والی عورت کی طرف سے قائم ہوتے ہیں (رضاعی ماموں، رضاعی خالہ وغیرہ)
اسی طرح اس عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا باپ بن جاتا ہے اور اس کی طرف سے دودھ کے رشتے قائم ہوتے ہیں (رضاعی چچا، تایا، رضاعی پھوپھی وغیرہ)
۔

(2)
جو رشتے نسبی طور پر محرم ہیں وہ رضاعی طور پر بھی محرم ہیں لہٰذا ان رضاعی رشتہ داروں کا آپس میں پردہ نہیں اور ان کا باہم نکاح بھی جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے، حدیث: 1937 کے فوائد)

(3)
اگر کسی مسئلہ میں شاگرد کو کوئی اشکال یا شبہ ہو تو استاد سے بیان کر دینا چاہیے اور استاد کو چاہیے کہ مناسب انداز سے اشکال دور کر دے۔

(4)
ہاتھ کو مٹی لگنے کے محاورہ سے اہل عرب فقر و مسکنت مراد لیتے ہیں تاہم تعجب کے موقع پر یہ جملہ بولنے سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1949   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 374  
´اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا`
«. . . انها اخبرته ان افلح اخا ابى القعيس جاء يستاذن عليها -وهو عمها من الرضاعة- بعد ان نزل الحجاب، قالت: فابيت ان آذن له. فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرته بالذي صنعت فامرني ان آذن له علي . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 374]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5103، ومسلم 1445/3، من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا، بعد میں فرض ہوا۔
➋ نسبی اور رضاعی حرام رشتوں سے پردہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے پردہ کیا جاتا ہے جن سے اصلاً نکاح جائز ہے۔
➌ رضاعی ماں حقیقی ماں کی طرح ہے لہٰذا حقیقی نسبی رشتوں کی طرح رضاعی رشتے بھی حرام ہیں۔
➍ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دودھ پیتے بچے کی رضاعت دودھ کے پانچ گھونٹ پینے سے ثابت ہو جاتی ہے لیکن بڑے آدمی کی رضاعت میں اختلاف ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے جائز سمجھتی تھیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ آنے والی حدیث سے بھی ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 260/8]
➎ امہات المؤمنین پردے کے وجوب کے بعد عام مومنوں سے پردہ کیا کرتی تھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 39   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 967  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوالقعیس کا بھائی افلح حجاب کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آنے کیلئے اجازت طلب کرتا رہا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیا کروں اور فرمایا کہ وہ تمہارا چچا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 967»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لبن الفحل، حديث:5103، ومسلم، الرضاع، باب تحريم الرضاعة من ماء الفحل، حديث:1445.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا دودھ پی لیا جائے اس کا شوہر دودھ پینے والے کے لیے بمنزلہ باپ ہوگا۔
اب جو رشتے ماں‘ باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
2.افلح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا اس لیے ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
3.دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے‘ اس لیے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی اور اسی وجہ سے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
وضاحت: «افلح» ان کی کنیت ابوجعد اور نام افلح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔
ان کے بھائی ابوالقعیس کا نام جعد تھا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ وائل بن افلح اشعری ان کا نام تھا۔
اس طرح ان کے بھائی کا نام اور ان کے باپ کا نام ایک ہوا۔
معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچے دو تھے۔
ایک تو ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا‘ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوت ہوگیا تھا‘ دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلانے والی کا دیور تھا۔
اس کا نام افلح تھا جو کہ ابوالقعیس کا بھائی تھااور ابوالقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی باپ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 967   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3316  
´عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا ابوالجعد میرے پاس آئے، تو میں نے انہیں واپس لوٹا دیا (ہشام کہتے ہیں کہ وہ ابوالقعیس تھے)، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں (گھر میں) آنے کی اجازت دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3316]
اردو حاشہ:
رضاعی چچا دو قسم کا ہوسکتا ہے۔ رضاعی باپ کا سگا بھائی یا سگے باپ کا رضاعی بھائی۔ دونوں سے نکاح حرام ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ان دوروایتوں میں سے ایک (3316) میں پہلا رضاعی چچا مراد ہوگا اور دوسری (3315) میں دوسری قسم کا ورنہ ایک ہی سوال دودفعہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3316   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3318  
´عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح جو میرے رضاعی چچا ہوتے تھے میرے پاس آنے کی اجازت مانگ رہے تھے تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں۔‏‏‏‏ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہ واقعہ پردہ کی آیت کے نزول کے بعد کا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3318]
اردو حاشہ:
چچا سے نکاح حرام ہے‘ لہٰذا اس سے پردہ نہیں۔ وہ بھتیجی کے گھر میں آسکتا ہے مگر اجازت لے کر کیونکہ کسی کے گھر میں کوئی شخص بھی بلا اجازت نہیں داخل ہوسکتا۔ صرف خاوند اپنے گھر میں بلا اجازت جاسکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3318   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3319  
´عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے چچا افلح نے پردہ کی آیت کے اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا ہے (وہ میرے محرم کیسے ہو گئے)، آپ نے فرمایا: تم انہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3319]
اردو حاشہ:
حدیث: 3232 میں عنقریب گزرا ہے کہ تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ظاہر الفاظ کے لحاظ سے بددعا ہے مگر یہاں مراد بددعا نہیں بلکہ مشفقانہ ڈانٹ اور تفہیم ہے۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ کی بددعا اگر وہ غصے میں نہ ہو تو دعا ہی پر محمول ہوتی ہے۔ عرب میں بلکہ سب اقوام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ بددعا کے ہوتے ہیں مگر مقصود ترحم  وغیرہ ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3319   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3320  
´عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح (میرے پاس گھر میں آنے کی) اجازت مانگنے آئے، میں نے کہا: میں جب تک خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں انہیں اجازت نہ دوں گی، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے بتایا کہ ابوالقعیس کے بھائی افلح آئے تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، آپ نے فرمایا: (نہیں) انہیں اجازت دے دو کیونکہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3320]
اردو حاشہ:
ایک ہی حدیث کو کئی سندوں سے بیان کرنے میں کئی فائدے ہیں۔ سند کے اختلافات واضح ہوجاتے ہیں۔ راویوں کو لگنے والی غلطیوں کا علم ہوجاتا ہے۔ واقعے کی تفصیلات مکمل طور پر معلوم ہوجاتی ہیں وغیرہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3320   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2057  
´مرد سے دودھ کا رشتہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کر لیا، انہوں نے کہا: مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں؟ میں نے کہا: چچا کس طرح سے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2057]
فوائد ومسائل:
دودھ پلانے والی رضاعی ماں ہوئی تو اس کا شوہر رضاعی باپ اور اس کا بھائی رضائی چچا ہوا جس طرح دودھ پلانے والی سے تعلق جڑتا ہے۔
ویسے ہی اس کے شوہر اور عزیزوں سے بھی جُڑ جاتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2057   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1148  
´دودھ کی نسبت مرد کی طرف ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1148]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیر خوار پر حرام ہو جاتا ہے اوراس سے بھی شیر خوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1148   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:231  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رضائی چچا سے کوئی پردہ نہیں ہے، ان کو گھر میں آنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن شریعت پرسختی سے کار بند تھیں، اور پردے کا خاص اہتمام کرتی تھیں، اللہ تعالیٰ تمام مسلمان بہنوں کو پردے کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 231   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3571  
حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ابو القعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا تھا اور پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہیں اپنے اس کام (عمل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے انہیں اجازت دینے کا حکم دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3571]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابوالقعیس کا بھائی افلح جس کو بعض روایات میں ابوالجعد کہا گیا ہے اور بعض میں ابن القعیس ایک آدمی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا ہے لیکن اس کو ابولقعیس قراردینا راوی کا وہم ہے۔
اور حدیث نمبر1۔
میں جس رضاعی چچا کو فوت شدہ قرار دیا گیا ہے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رضاعی بھائی تھا اور یہ افلح ان کے رضاعی باپ ابوالقعیس کا بھائی تھا،
اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دونوں کا حکم الگ الگ سمجھا،
اس لیے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دی،
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حرمت رضاعت کا تعلق صرف مرضعہ (دودھ پلانے والی)
سے نہیں ہے بلکہ اس کے خاوند کے اصول اورفروع سے بھی ہے۔
کیونکہ رضاعت میں خاوند کا بھی اثر اور عمل دخل ہے اور یہ مسئلہ اب سب کے درمیان اتفاقی ہے۔
اگرچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین،
تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور بعض فقہاء،
خاوند کا دودھ میں دخل تسلیم نہیں کرتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3571   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3573  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ابو القعیس کا بھائی افلح پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آیا اور ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، اور ابو القعیس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی باپ تھا، حضرت عائشہ نے جواب دیا، اللہ کی قسم! میں اس وقت تک افلح کو اجازت نہیں دوں گی، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر لوں، کیونکہ مجھے ابو القعیس نے تو دودھ نہیں پلایا بلکہ مجھے دودھ تو اس کی بیوی نے پلایا ہے۔ حضرت عائشہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3573]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے کہرضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں،
جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
لیکن مؤطا اما مالک میں ان کا طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہنوں اور بھتیجیوں نے جن بچیوں کو د ودھ پلایا تھا،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو تو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی تھیں لیکن ان کے بھائیوں کی بیویوں نے جن کو دودھ پلایا تھا وہ ان کے پاس نہیں آ سکتے تھے،
جس سے معلوم ہوتا ہے وہ رضاعت میں مرد کی تاثیر کی قائل نہ تھیں۔
اس کا جواب حافظ عبدالبرنے دیا ہے۔
اپنے محارم کو اپنے پاس آنے کی اجازت دینا ضروری نہیں ہے۔
عورت کو اختیار ہے اگر وہ کسی کو اجازت نہ دینا چاہے تو اجازت نہ دے۔
اورعلامہ باجی نے اس کے دو جواب دئیے ہیں: 1۔
یہ قول ان کی اپنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ روایت کے منافی ہے (بلکہ اپنے بیان کردہ اصول کے بھی منافی ہے)
اس لیے یہ راوی کا وہم ہے۔

بہنوں اور بھتیجوں کی اولاد کو تو ہر صورت میں آنے کی اجازت دیتی تھیں۔
لیکن بھائیوں کی بیویوں کی صرف اس اولاد کو اجازت دیتی تھیں۔
جو ان کے بھائیوں کے نکاح میں آنے کے بعد کی ہے جن بچوں کو انہوں نے ان سے شادی سے پہلے دودھ پلایا تھا یا بڑی عمر کے ہونے کی صورت میں دودھ پلایا تھا ان کو اجازت نہیں دیتی تھیں،
حالانکہ وہ رضاعتِ کبیر کی قائل ہیں۔
اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محض تورع اور احتیاط کے طور پر کرتی تھیں،
جیسا کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن زمعہ سے پردہ کا حکم دیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3573   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3575  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرنے آیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا۔ میرا رضاعی چچا میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرتا تھا، میں نے اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا چچا ہے، وہ تیرے پاس آ سکتا ہے۔ میں نے کہا، مجھے دودھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3575]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے طرزعمل سے معلوم ہوتا ہے اگر مسئلہ کے بارے میں علم نہ ہو یا شک ہو،
تو اس پر اہل علم سے پوچھے بغیر عمل نہیں کرناچاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیے بغیر افلح کو اندرآنے کی اجازت نہیں دی۔

عورت کو غیر محرم سے پردہ کرنا چاہیے اور خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

محرم کو بھی اجازت لے کر آنا چاہیے۔

اگرسائل مفتی کے سامنے اپنے طور پر کوئی ترجیح یا تعلیل بیان کرے جو درست نہ ہو تو اس کو مناسب تنبیہ کرنی چاہیے۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تعلیل،
مجھے مرد نےتو دودھ نہیں پلایا نیز انکار وزجر کے طور پر فرمایا:
تیرے ہاتھ خاک آ لود ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3575   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4796  
4796. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کے بھائی حضرت افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا: جب تک میں اس سلسلے میں نبی ﷺ سے اجازت نہ حاصل کر لوں، ان سے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے بھائی ابو قعیس ؓ نے مجھے کون سا دودھ پلایا ہے۔ مجھے تو ابو قعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو قعیس ؓ کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں، ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے چچا کو ملنے سے تمہیں کیوں انکار ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے ابو قعیس نے دودھ نہیں پلایا بلکہ دودھ پلانے والی تو اس کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں، انہیں اندر آنے کی اجازت دو۔ وہ تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4796]
حدیث حاشیہ:
کسی بچہ یا بچی کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلا دے تو وہ شرعاً دودھ کی ماں بن جاتی ہے اور اس کے احکام حقیقی ماں کی طرح ہو جاتے ہیں، اس کا خاوند باپ کے درجہ میں اور اس کے لڑکے بھائی کے درجہ میں آ جاتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا مطلب یہی کہ رضاعی چچا، رضاعی پھوپھی، رضاعی ماموں، رضاعی خالہ سب محرم ہیں۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے کئی وجوہ سے ہے۔
ایک یہ کہ اس حدیث سے رضاعی باپ اور رضاعی چچا کے سامنے نکلنا ثابت ہوتا ہے اورآیت میں جو اٰباءھن کا لفظ تھا اس کی تفسیر حدیث سے ہو گئی کہ رضاعی باپ اور چچا بھی اٰباءھن میں داخل ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے۔
عم الرجل صنو أبیه۔
دوسرے یہ کہ آیت میں ازواج مطہرات کے پاس جن لوگوں کا آنا روا تھا ان کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی ان ہی کا تذکرہ ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔
تیسرے یہ کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مذکور ہے کہ جتنے رشتے خون کیوجہ سے حرام ہوتے ہیں وہی دودھ کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں تو اس سے آیت کی تفسیر ہو گئی یعنی دوسرے محارم کا بھی ازواج مطہرات کے پاس آنا روا ہے گو آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے، جیسے دادا، نانا، ماموں، چچا وغیرہ اور تعجب ہے اس شخص پر جس نے حضرت امام بخاری پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے۔
قسطلانی نے کہا امام بخاری نے یہ حدیث لا کر عکرمہ اور شعبی کا رد کیا ہے جو چچا یا ماموں کے سامنے عورت کو دوپٹہ اتار کو آنا مکروہ جانتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4796   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5103  
5103. سیدہ عائشہ سے روایت ہےکہ ابو قعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ آپ کا رضاعی چچا تھا۔ یہ پردے کی آیات اترنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (سیدہ عائشہ ؓ) فرماتی ہیں: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا: جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسے اجازت دے دیا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5103]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ وہ ان کے رضاعی چچا تھے۔
اکثر علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ جیسے دودھ پلانے سے مرضعہ حرام ہو جاتی ہے ویسے ہی اس کا خاوند بھی اور اس کے عزیز بھی محرم ہو جاتے ہیں، جس خاوند کے جماع کی وجہ سے عورت کے دودھ ہوا ہے جنہوں نے اس کے خلاف کہا ہے ان کا کہنا غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5103   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2644  
2644. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت افلح ؓ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی) اجازت دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2644]
حدیث حاشیہ:
رضاعت میں صرف اکیلے افلح ؓ کی گواہی کو تسلیم کیاگیا، باب کا یہی مقصد ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ گواہ کو پرکھنا بھی ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2644   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2644  
2644. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت افلح ؓ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی) اجازت دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2644]
حدیث حاشیہ:
(1)
عرب معاشرے میں رضاعت کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔
اسلامی شریعت نے اسے برقرار رکھا۔
محرمات نکاح میں اس کا عمل دخل تسلیم کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کے تعلق کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں، اسی طرح جو رشتے نسب کے باعث محرم ہیں وہ رضاعت کے تعلق سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔
حضرت افلح ؓ بھی اسی تعلق کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ کے چچا تھے۔
اس سلسلے میں مشہور ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے افلح کے کہنے کا اعتبار کر لیا گیا۔
(2)
رضاعت جو زمانۂ جاہلیت میں تھی اور وہاں کے لوگوں میں مشہور تھا کہ فلاں نے فلاں کا دودھ پیا ہے تو اس قسم کی رضاعت پر شرعی احکام جاری ہوئے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محرم کو بھی اندر آنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ شاید محرمہ ایسی حالت میں ہو کہ محرم کو دیکھنا ایسی حالت میں جائز نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2644   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4796  
4796. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کے بھائی حضرت افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا: جب تک میں اس سلسلے میں نبی ﷺ سے اجازت نہ حاصل کر لوں، ان سے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے بھائی ابو قعیس ؓ نے مجھے کون سا دودھ پلایا ہے۔ مجھے تو ابو قعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو قعیس ؓ کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں، ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے چچا کو ملنے سے تمہیں کیوں انکار ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے ابو قعیس نے دودھ نہیں پلایا بلکہ دودھ پلانے والی تو اس کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں، انہیں اندر آنے کی اجازت دو۔ وہ تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4796]
حدیث حاشیہ:

کسی بچے کو ماں کے علاوہ اگر کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے تو وہ شرعی طور پر دودھ کی یعنی رضاعی ماں بن جاتی ہے اس کے احکام حقیقی ماں جیسے ہو جاتے ہیں۔
اس کا خاوند باپ کے درجے میں اور اس بیٹے بھائیوں کے درجے میں آ جاتے ہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رضاعی باپ رضاعی چچے اور رضاعی ماموں کے سامنے آنا جائز ہے کیونکہ ان کا حکم حقیقی باپ حقیقی چچے ماموں کا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے محارم سے بھی پردہ نہیں ہے اگرچہ آیت کریمہ میں ان کا ذکر نہیں مثلاً:
دادا، نانا، چچا اور ماموں وغیرہ۔

اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ آیت میں خونی محارم کا ذکر ہے اور حدیث میں رضاعی محارم کا بیان ہے یعنی جس طرح خونی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح رضاعی محارم بھی گھرآ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4796   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5103  
5103. سیدہ عائشہ سے روایت ہےکہ ابو قعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ آپ کا رضاعی چچا تھا۔ یہ پردے کی آیات اترنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (سیدہ عائشہ ؓ) فرماتی ہیں: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا: جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسے اجازت دے دیا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5103]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ دودھ پینے سے صرف عورت کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے۔
آپ نے فرمایا:
میرے پاس افلح آئے تو میں نے پردہ کر لیا۔
انھوں نے کہا:
آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں جبکہ میں آپ کا چچا ہوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
وہ کیسے؟ انھوں نے کہا:
آپ کو میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔
میں نے کہا:
مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے اس کے شوہر نے تو نہیں پلایا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا:
وہ تیرا چچا ہے اور تیرے پاس آسکتا ہے۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2057)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے تمام رشتے داردودھ پینے والے کے عزیز و اقارب بن جاتے ہیں اور عورت کا خاوند اس کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،ان میں سے ایک نے کسی لڑکے کو اور دوسری نے کسی لڑکے کو دودھ پلایا ہو تو اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں لبن فحل کا اعتبار ہوگا، چونکہ دودھ خاوند کی وجہ سے آتا ہے، اس لیے اس کے اثرات دونوں بیویوں میں ہوں گے اور ان کے دودھ پلانے سے حرمت رضاعت قائم ہوگی۔
(فتح الباري: 190/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5103