Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
29. بَابُ : النَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ
باب: عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1925
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ:" كَانَتْ يَهُودُ، تَقُولُ: مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا كَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جس نے بیوی کی اگلی شرمگاہ میں پیچھے سے جماع کیا تو لڑکا بھینگا ہو گا، چنانچہ اللہ سبحانہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» (سورة البقرة: 223) تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، لہٰذا تم اپنی کھیتیوں میں جدھر سے چاہو آؤ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/النکاح 19 (1435)، سنن الترمذی/التفسیر 3 (2978)، (تحفة الأشراف: 3030)، وقد أخر جہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة 39 (4528)، سنن الدارمی/الطہارة 113 (1172)، النکاح 30 (2260) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انصار بھی یہود کی پیروی کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ جو کوئی دبر کی طرف سے قبل میں جماع کرے تو لڑکا بھینگا (احول) ہو گا، اللہ تعالی نے اس کو باطل کیا، اور اگلی شرمگاہ میں ہر طرح سے جماع کو جائز رکھا، مسند احمد میں ہے کہ انصار کی ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: عورت سے اگلی شرمگاہ میں پیچھے سے کوئی جماع کرے تو کیا حکم ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں؟ انہوں نے کہا میں نے رات کو اپنے پالان (عورت) کو الٹا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، تب یہ آیت اتری، یعنی اختیار ہے آگے سے جماع کرو یا پیچھے سے، لیکن دخول ضروری ہے کہ قبل (اگلی شرمگاہ) میں ہو، اور فرمایا: بچو حیض سے اور دبر سے لہذا آیت کا یہ مطلب نہیں کہ دبر (پاخانہ کا مقام) میں دخول کرنا جائز ہے، طیبی نے کہا: اجنبی عورت سے اگر دبر میں جماع کیا تو وہ زنا کے مثل ہے، اور جو اپنی عورت یا لونڈی سے کیا تو حرام کام کا مرتکب ہوا، لیکن اس پر حد نہ جاری ہو گی، اور امام نووی کہتے ہیں کہ مفعول (جس کے ساتھ غلط کام کیا گیا) اگر چھوٹا یا پاگل ہو یا اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو تو ایسا فعل کرنے والے پر حد جاری ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1925 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1925  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مباشرت کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے، خواہ عورت چت لیٹی ہوئی ہو یا پیٹ کے بل یا کروٹ پر تاہم یہ ضروری ہے کہ صرف وہی راستہ اختیار کیا جائے جس کی شرع نے اجازت دی ہے یعنی صرف عورت کی قبل (اگلی شرمگاہ)
استعمال کی جائے۔

(2)
عورت سے صنفی تعلق کا اہم مقصد اولاد کا حصول ہے، اسی لیے عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
مرد کسان کی طرح اس زمین میں بیج بوتا ہے جس سے اسے اولاد کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے غيرفطری فعل کرنا جائز نہیں کیونکہ کھیت سے باہر جوہڑ وغیرہ میں بیج پھینک دینا حماقت ہے۔

(3)
﴿أَنَّىٰ شِئْتُمْ﴾ کا مطلب جہاں سے چاہو بھی کیا جائے تو بھی غیر فطری عمل کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
کیونکہ صرف (حرث)
کھیتی کی جگہ میں آنے کا حکم دیا گیا ہے کسی اور جگہ نہیں خواہ براہ راست آگے سے آئے یا پیچھے سے ہو کر آگے آئے۔

(4)
معاشرے میں موجود توہمات کی تردید کر کے حقیقت واضح کرتے رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1925