صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
68. بَابُ صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ:
باب: ایام تشریق کے روزے رکھنا۔
حدیث نمبر: 1997
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عِيسى بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَا:" لَمْ يُرَخَّصْ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَنْ يُصَمْنَ، إِلَّا لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْهَدْيَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عیسیٰ سے سنا، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (نیز زہری نے اس حدیث کو) سالم سے بھی سنا، اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا (عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم) دونوں نے بیان کیا کہ کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1997 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1997
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أیام التشریق أي الأیام التي بعد یوم النحر و قد اختلف في کونها یومین أو ثلاثة و سمیت أیام التشریق لأن لحوم الأضاحي تشرق فیها أي تنشر في الشمس الخ یعنی ایام تشریق یوم النحر دس ذی الحجہ کے بعد والے دنوں کو کہتے ہیں جو دو ہیں یا تین اس بارے میں اختلاف ہے (مگر تین ہونے کو ترجیح حاصل ہے)
اور ان کا نام ایام تشریق اس لیے رکھا گیا کہ ان میں قربانیوں کا گوشت سکھانے کے لیے دھوپ میں پھیلا دیا جاتا تھا۔
والراجع عند البخاري جوازہ للمتمتع فإنه ذکر في الباب حدیث عائشة و ابن عمر في جواز ذلك و لم یورد غیرہ یعنی امام بخاری ؒ کے نزدیک حج تمتع والے کے لیے (جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو)
ان ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے، آپ نے باب میں حضرت عائشہ ؓ اور ابن عمر ؓ کی احادیث ذکر کی ہیں اور کوئی ان کے غیر حدیث نہیں لائے۔
جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ غیر متمتع کے حق میں قرار دی جاسکتی ہیں۔
اور جواز والی احادیث متمتع کے حق میں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
اس طرح ہر دو احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ کا فیصلہ یہ ہے:
یترجح القول بالجواز و إلی هذا جنح البخاري۔
(فتح)
یعنی حضرت امام بخاری ؒ جواز کے قائل ہیں اور اسی قوال کو ترجیح حاصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1997
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1997
حدیث حاشیہ:
(1)
حج تمتع کرنے والے کو اگر قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو ایام تشریق میں روزے رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے حضرات کو ان دنوں روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں، حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
(مسندأحمد: 75/5) (2)
حضرت عائشہ ؓاور حضرت ابن عمر ؓ نے درج ذیل آیت سے استنباط کیا ہے:
﴿فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ﴾ ”پس جسے قربانی کا جانور میسر نہ ہو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے۔
“ (البقرة196: 2)
آیت کریمہ میں (فِي الْحَجِّ)
کے الفاظ میں عموم ہے، خواہ یوم النحر سے پہلے ہوں یا اس کے بعد، اس بنا پر ایام تشریق ان میں شامل ہیں۔
(فتح الباري: 309/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1997