Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
11. بَابُ : مَا يَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الإِبِلِ
باب: محصل زکاۃ والے سے کس قسم کا اونٹ لے؟
حدیث نمبر: 1802
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَرْجِعُ الْمُصَدِّقُ إِلَّا عَنْ رِضًا".
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عامل زکاۃ لوگوں کو خوش رکھ کر ہی واپس جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 55 (989)، سنن الترمذی/الزکاة 20 (647، 648)، سنن النسائی/الزکاة 14 (2462)، (تحفة الأشراف: 3215)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة 5 (1589)، مسند احمد (4/362)، سنن الدارمی/الزکاة 32 (1712) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان داری اور خوف الہی کو دیکھئے کہ ایک شخص نے خوشی سے اپنا عمدہ مال زکاۃ میں دیا تب بھی انہوں نے قبول نہ کیا، دو وجہ سے، ایک تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال زکاۃ میں لینے سے منع کر دیا تھا، دوسرے اس وجہ سے کہ شاید دینے والے کے دل کو ناگوار ہو، گو وہ ظاہر میں خوشی سے دیتا ہے، اس ذرا سی حق تلفی اور ناراضی کو بھی اتنا بڑا گناہ سمجھا کہ یوں کہا: زمین مجھے کیسے اٹھائے گی اور آسمان میرے اوپر گر پڑے گا اگر میں ایسا کام کروں، جب اسلام میں ایسے متقی اور ایمان دار اللہ تعالی سے ڈرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تھے تو اسلام کو اس قدر جلد ایسی ترقی ہوئی کہ اس کا پیغام دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچ گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
جابر الجعفي ضعيف رافضي
و تابعه مجالد: ضعيف (11) عند الطبراني (2362) و روي مسلم (989) عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((أرضوا مصدقيكم)) وھو يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444
-

وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان داری اور خوف الہی کو دیکھئے کہ ایک شخص نے خوشی سے اپنا عمدہ مال زکاۃ میں دیا تب بھی انہوں نے قبول نہ کیا، دو وجہ سے، ایک تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال زکاۃ میں لینے سے منع کر دیا تھا، دوسرے اس وجہ سے کہ شاید دینے والے کے دل کو ناگوار ہو، گو وہ ظاہر میں خوشی سے دیتا ہے، اس ذرا سی حق تلفی اور ناراضی کو بھی اتنا بڑا گناہ سمجھا کہ یوں کہا: زمین مجھے کیسے اٹھائے گی اور آسمان میرے اوپر گر پڑے گا اگر میں ایسا کام کروں، جب اسلام میں ایسے متقی اور ایمان دار اللہ تعالی سے ڈرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تھے تو اسلام کو اس قدر جلد ایسی ترقی ہوئی کہ اس کا پیغام دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچ گیا۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1802 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1802  
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملو، اس کے فرمائش کی ادائیگی میں اس سے تعاون کرو اور خوشی کے ساتھ زکاۃ ادا کرو۔
اگر تمہاری نظر میں وہ تم سے واجب سے زیادہ طلب کر رہا ہو تو بھی ادا کرو۔
اگر اس کی غلطی ہو گی تو اس کا بوجھ اس کے سر ہوگا، تمہیں ثواب ہی ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1802   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1589  
´زکاۃ وصول کرنے والے کی رضا مندی کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یعنی کچھ دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: صدقہ و زکاۃ وصول کرنے والوں میں سے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، انہوں نے پوچھا: اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، عثمان کی روایت میں اتنا زائد ہے اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں۔‏‏‏‏ ابوکامل اپنی حدیث میں کہتے ہیں: جریر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے میرے پاس جو بھی مصدق آیا، مجھ سے خوش ہو کر ہی واپس گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1589]
1589. اردو حاشیہ: عامل کو راضی کرنا اسی صورت میں ہے کہ وہ واجب شرعی کا مطالبہ کرے تو اسے ادا کر دیا جائے اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کا رویہ رکھا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ حکم عادل اور غیر ظالم عاملین کے متعلق ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1589   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2462  
´جب محصل زکاۃ کی وصولی میں زیادتی کرے۔`
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ دیہات کے لوگ آئے، اور انہوں آپ سے عرض کیا: آپ کے بھیجے ہوئے کچھ محصل زکاۃ ہمارے پاس آتے ہیں جو ہم پر ظلم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی و مطمئن کرو، انہوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں۔ آپ نے فرمایا: اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو، انہوں نے پھر عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا: اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
عام لوگ زکاۃ کی مقدار کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ لے رہا ہے۔ ویسے بھی زکاۃ دیتے وقت یہ احساس غالب رہتا ہے، س لیے آپ نے زکاۃ کے تعین کا اختیار عوام الناس کو نہیں دیا بلکہ وصول کرنے والوں کو یہ اختیار دیا کیونکہ وہ زکاۃ کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مطالبے کے مطابق انھیں زکاۃ ادا کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو حاکم بالا کے پاس جائیں اور فیصلہ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہر آدمی کو مزاحمت کا اختیار دے دیا جائے تو انتظامی افراتفری پھیل جائے گی اور ملک ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والوں کے من مانی کی اجازت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:814  
814- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص تمہارے پاس آئے تو وہ مطمئن ہو کر تم سے الگ ہو۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:814]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ وصول کرنے والے کو خوشی سے صدقہ جمع کروا دینا چاہیے تاکہ وہ راضی ہو کر جائے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 814   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2494  
حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمھارے پاس صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ تمھارے ہاں سے اس حال میں جائے کہ وہ خوش ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2494]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حکومت کے کارکنان اور حکومت سے جب کہ وہ اسلامی حکومت ہو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پابند ہو۔
تو ہر حالت میں اطاعت وفرمانبرداری سے پیش آنا چاہیے تاکہ باہمی اعتماد اوراتفاق کی فضا برقرار رہے اور ایک دوسرے سے بدظنی اور بدگمانی کی بنا پر حالات میں کشیدگی اور بگاڑ پیدا نہ ہو لیکن یہ اطاعت صحیح اورجائز کاموں میں ہو گی۔
نافرمانی اور ناجائز کاموں میں نہیں ہوگی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2494