Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
4. بَابُ : زَكَاةِ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ
باب: سونے اور چاندی کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1791
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَعَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ، وَمِنَ الْأَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا".
عبداللہ بن عمر اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ میں آدھا دینار لیتے تھے، اور چالیس دینار میں ایک دینار کے حساب سے لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7291، 16289، ومصباح الزجاجة: 64) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 813)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع ضعيف
و للحديث شواھد ضعيفة عند أبي داود (1573) وغيره
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 443

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1791 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1791  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جو گھوڑے کام کاج کے لیے ہوں اور جو غلام خدمت کے لیے ہوں، ان کی زکاۃ دینا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص گھوڑوں یا غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہو تو اسے دوسرے مال تجارت کی طرح ان کی قیمت کا اندازہ کر کے ان کی زکاۃ ادا کرنی چاہیے اس کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں لیکن ان کی سندوں میں کلام ہے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث باہم مل کر قابل استدلال ہو سکتی ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے بھی تاجروں سے مال تجارت پر زکاۃ وصول کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ (موطأ إمام مالك، باب زکاۃ العروض: 1؍235)
اس کی سند حسن ہے۔
امام بیہقی رحمة الله عليه نے مال تجارت پر زکاۃ کے وجوب کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا ہے:
(وهذا قول عامة اهل العلم) (سنن البیہقی: 4؍147)
اکثر علماء کا یہی قول ہے۔

(2)
درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن موجودہ حساب سے 2.975 گرام اور بعض کے نزدیک 3.06 گرام ہے۔
کم از کم دو سو درہم چاندی ہو تو زکاۃ واجب ہوتی ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، باب زکاة الورق، حدیث: 1447)
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، باب ما جاء فی صدقة الزرع والثمر والحبوب، حدیث: 627)
اکثر علماء نے دو سو درہم کی مقدار ساڑھے باون تولے بیان کی ہے۔

(3)
سونے کا نصاب بیس دینار ہے جس کی مقدار ساڑھے سات تولے ہوتی ہے۔
جب کہ موجودہ دور کے حساب سے اس کا وزن 85 گرام بنتا ہے۔

(4)
سونے اور چاندی میں زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہے، مثلا:
اگر کسی کے پاس دس تولے سونا ہو تو اسے چوتھائی تولہ(تین ماشے یعنی 2.916 گرام)
سونے کے برابر زکاۃ ادا کرنا فرض ہوگی۔

(5)
نقد رقم کا نصاب سونے کے برابر ہے کیونکہ موجودہ نظام کے مطابق کرنسی نوٹ سونے کے قائم مقام قرار دیے جاتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی تجارت میں ممالک ایک دوسرے سے سونا وصول اور ادا کرتے ہیں تاہم علماء کی اکثریت نے نقد رقم کی زکاۃ کے لیے چاندی کے نصاب کو بنیاد بنایا ہے، یعنی کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر جس کے پاس رقم فالتو پڑی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو وہ اس میں سے ڈھائی فی صد کے حساب سے زکاۃ ادا کرے۔
اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس نصاب میں غرباء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس طرح اہل نصاب زیادہ ہوں گے اور زیادہ زکاۃ نکلے گی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1791