Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
29. بَابُ : مَا جَاءَ فِي صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ
باب: ماہانہ تین دن روزے رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1707
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمِنْهَالِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِصِيَامِ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ، وَيَقُولُ: هُوَ كَصَوْمِ الدَّهْرِ، أَوْ كَهَيْئَةِ صَوْمِ الدَّهْرِ".
منہال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام بیض کے روزہ کے رکھنے کا حکم دیتے تھے یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں تاریخ کے روزے کا، اور فرماتے: یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مثل ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصوم 68 (2449)، سنن النسائی/الصیام 51 (2432، 2433، 2434)، (تحفة الأشراف: 11071)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/165، 5/27، 28) (صحیح لغیرہ)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ایام بیض کے روزے سے مراد ہجری مہینوں کی تیرھویں چودھویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں انھیں ایام بیض اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان تاریخوں کی راتیں روشن ہوتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1707 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1707  
اردو حاشہ:
فائده:
  مذ کورہ روایت کو ہما رے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے تاہم اس مفہوم کی دوسری احادیث حضرت ابو ذر غفا ری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے جنھیں شیخ عبدالقادر ارناؤوط نے جامع الاصول کے حاشیے میں حسن قرار دیا ہے دیکھیے: (جامع الأصول، حدیث: 4474)
 حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جامع تر ندی اور سنن نسائی میں وارد ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء فی الصوم ثلاثة ایام من کل شھر، حدیث: 762، وسنن نسائي، الصوم، باب الذکر الإختلاف علی موسی بن طلحة فی االخیر فی صیام ثلاثة ایام من الشھر، حدیث: 2426)
حضرت عبداللہ ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث سنن نسائی میں وارد ہے (کتاب، الصوم، باب صوم النبی ﷺ، حدیث 2347)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1707   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2434  
´ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے والی حدیث کے سلسلہ میں موسیٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
قدامہ (قتادہ بن ملحان) بن ملحان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روشن چاندنی راتوں کے دنوں یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
(1) یہ تینوں روایات ایک ہی صاحب بیان فرماتے ہیں، البتہ ان کے والد کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ تینوں روایات سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں روایات کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: 4/ 101،102۔ رقم الحدیث: 947، وصحیح سنن النسائي: 2/ 170، 171 رقم: 2423، 2425، 2425)
(2) حکم ہمیشہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا، قرائن ساتھ دیں تو حکم استحباب یا جواز کے لیے بھی ہوتا ہے، جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا﴾  (المائدة: 5: 2) جب احرام کھول لو تو شکار کرو۔ ﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأرْضِ﴾ (الجمعة:62: 10) جب جمعے کی نماز پڑھ لی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ۔ اہل علم میں سے کسی کے نزدیک بھی یہ دونوں کام ضروری نہیں، کوئی بے علم شخص کہہ دے تو الگ بات ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2449  
´ہر مہینے تین روزے رکھنے کا بیان۔`
قتادہ بن ملحان قیسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایام بیض یعنی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخوں میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے، اور فرماتے: یہ پورے سال روزے رکھنے کے مثل ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2449]
فوائد ومسائل:
تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے ایام کو ایام بیض (سفید راتوں کے دن) اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ ان راتوں میں چاند تقریبا ساری رات چمکتا ہے۔
ان دنوں کے روزوں میں تفاؤل یہ ہے کہ جس طرح ان راتوں کا اندھیرا اجالے سے بدلا ہوا ہوتا ہے، ایسے ہی اللہ عزوجل روزے دار کی سیاہ کاریوں کو سفیدی اور چمک سے بدل دے گا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ترغیب و تشویش کے معنی میں ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2449   

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قَتَادَةَ بْنِ مَلْحَانَ الْقَيْسِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، قَالَ ابْن مَاجَةَ: أَخْطَأَ شُعْبَةُ، وَأَصَابَ هَمَّامٌ.
اس سند سے بھی قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں شعبہ نے غلطی کی ہے، اور ہمام نے صحیح طرح سے روایت کی ہے، عبدالملک بن منہال کے بجائے صحیح عبدالملک بن قتادہ بن ملحان ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف