سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
23. بَابُ : مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ السُّحُورِ
باب: سحری دیر سے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1695
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ:" تَسَحَّرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ النَّهَارُ، إِلَّا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری فجر کے طلوع ہو جانے کے وقت کھائی، لیکن ابھی طلوع نہیں ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصوم 10 (2154)، (تحفة الأشراف: 3325)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/396، 400) (حسن الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1695 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1695
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس سے مراد رات کے بالکل آ خری حصے میں سحری کھا نا ہے جب کہ آد می کو شبہ ہو سکتا ہے کہ صبح صادق طلو ع ہو چکی ہے کیو نکہ یہ کھا نا نما ز فجر سے بہرحا ل پہلے ہی کھا یا گیا ہو گا اور نبی اکرم ﷺ فجر کی نما ز اندھیرے میں ادا کر تے تھے صبح صا دق قریب ہو جا نے کو دن کے نکلنے سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے مراد تا خیر میں مبالغہ ہے ورنہ روزے دار کے لئے صبح صادق کے بعد کھا نا پینا بالاتفاق منع ہے جس کی دلیل قرآ ن مجید کی یہ آ یت مبا رکہ ہے ﴿وَكُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ﴾ ”اور تم کھا تے پیتے رہو یہا ں تک صبح کا سفید دھا گا را ت کے سیا ہ دھا گے سے ظا ہر ہو جا ئے۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1695