سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
6. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ
باب: رویت ہلال (چاند دیکھنے) کی گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1653
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمُومَتِي مِنَ الْأَنْصَارِ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: أُغْمِيَ عَلَيْنَا هِلَالُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِيَامًا، فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ، فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ،" فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُفْطِرُوا، وَأَنْ يَخْرُجُوا إِلَى عِيدِهِمْ مِنَ الْغَدِ".
ابوعمیر بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ میرے انصاری چچاؤں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہمارے اوپر شوال کا چاند مشتبہ ہو گیا تو اس کی صبح ہم نے روزہ رکھا، پھر شام کو چند سوار آئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور دوسرے دن صبح عید کے لیے نکلیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 255 (1157)، سنن النسائی/صلاة العیدین 1 (1558)، (تحفة الأشراف: 15603)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/57، 58) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کے چاند کے لئے دو آدمیوں کی شہادت ضروری ہے، اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ اگر شوال کے چاند کے دن یعنی رمضان کی ۲۹ تاریخ کو بادل ہو تو تیس دن پورے کرے جب تک چاند ثابت نہ ہو، جیسا کہ آگے آنے والی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1653 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1653
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شوال کے چاند کےلئے کم از کم دو قابل اعتماد مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے۔
حضرت حارث بن حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ چاند دیکھ کر عبادت کریں (روزہ رکھیں اور عید کریں)
اگر ہمیں چاند نظر نہ آئے اور دو قابل اعتماد گواہ گواہی دے دیں تو ہم ان کی گواہی کی بنیاد پر عبادت کریں گے۔ (سنن ابی داؤد، الصیام، باب شھادۃ رجلین علی رویة ھلال شوال، حدیث: 2338)
اس حدیث کو امام دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔
(2)
اگر چاند کی خبر دوپہر کے بعد ملے تو عید کی نماز اگلے دن ادا کی جائے گی۔
لیکن روزہ اسی وقت چھوڑ دیا جائے گا۔
(3)
قریب کے شہر کی رویئت مقبول ہے۔
قافلہ دن بھر کے سفر کے بعد شام کو مدینے پہنچا تھا۔
اتنے فاصلے پر دیکھے ہوئے چاند کی بنیاد پر مدینے میں روزہ کھول دیا گیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1653
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 386
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا ابو عمیر بن انس رحمہ اللہ نے اپنے ایک چچا صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ چند سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ انہوں نے کل شام چاند دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ ”روزہ افطار کر دو اور کل صبح نماز عید کے لئے عید گاہ میں آ جاؤ۔“
اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 386»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب إذا لم يخرج الإمام للعيد من يومه، حديث:1157، وأحمد:5 /57، 58، وابن ماجه، الصيام، حديث:1653، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1558.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ۲۹ رمضان کو ایسی جگہ چاند نظر آجائے جہاں کا مطلع مختلف نہ ہو تو دوسرے روز صحیح اور قابل اعتبار ذرائع سے اطلاع ملنے پر روزہ اسی وقت افطار کر دیا جائے گا۔
2.اگر قبل از زوال خبر ملی تو اسی روز نماز عید بھی ادا کر لی جائے ورنہ دوسرے روز عید کی نماز ادا کی جائے گی۔
3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنی چاہیے اور اجتماعی طور پر پڑھنی چاہیے۔
4. اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ چاند کی رؤیت کا اعلان سرکاری طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
5.اعلان جانی پہچانی شخصیت کے توسط سے کیا جانا چاہیے۔
6. عصر حاضر میں قابل اعتماد شہادتوں کے بعد ریڈیو‘ ٹی وی سے اعلان کیا جاسکتا ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابوعمیر بن انس رحمہ اللہ» ان کا نام عبداللہ بن مالک انصاری تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے۔
صغار تابعین میں شمار ہوتے ہیں‘ ثقہ تھے۔
چوتھے طبقے کے راوی ہیں۔
اپنے باپ کے بعد کافی دیر زندہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 386