سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
4. بَابُ : مَا جَاءَ فِي وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
باب: شعبان کے روزوں کو رمضان کے روزوں سے ملانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1649
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْغَازِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَتْ:" كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ حَتَّى يَصِلَهُ بِرَمَضَانَ".
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصیام 44 (745 مختضراً)، سنن النسائی/الصیام 19 (2188)، (تحفة الأشراف: 16081)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 52 (970)، صحیح مسلم/الصیام 3 (1082)، موطا امام مالک/الصیام 22 (56)، مسند احمد (6/80، 89، 106) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 1739) (حسن صحیح) (صحیح أبی داود: 2101)»
وضاحت: ۱؎: پورے شعبان روزے رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزے زیادہ رکھتے تھے کیونکہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں،اور آپ کو یہ بات بےحد پسند تھی کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1649 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1649
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سارا شعبان روزے رکھنے سے مراد شعبان میں کثرت سے نفلی روزے رکھنا ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا میں نے نبی کریمﷺ کو رمضان کے سوا کسی مہینے میں پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
اور میں نے نبی کریمﷺ کو کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا (صحیح البخاري، الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: 1969)
(2)
بہتر یہ ہے کہ نصف شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جایئں۔
دیکھئے: (حدیث: 1651)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1649
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2180
´اس حدیث میں محمد بن ابراہیم پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہم (ازواج مطہرات) میں سے کوئی رمضان میں (حیض کی وجہ سے) روزہ نہیں رکھتی تو اس کی قضاء نہیں کر پاتی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے جتنا شعبان میں رکھتے تھے، آپ چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزے رکھتے، بلکہ (بسا اوقات) پورے (ہی) ماہ روزے رکھتے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2180]
اردو حاشہ:
”قضا نہیں دے سکتی تھی۔“ اس خطرے کی بنا پر کہ ایسا نہ ہو رسول اللہﷺ کو ہماری ضرورت محسوس ہو اور ہم روزے سے ہوں کیونکہ آپ ہر روز عصر کے بعد یا کسی اور وقت میں سب ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں جاتے تھے۔ باری کا تعلق تو صرف رات کی حد تک تھا دن کو آپ کسی گھر میں بھی جا سکتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2180
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2188
´اس حدیث میں خالد بن معدان پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزوں کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے، اور دو شنبہ (پیر) اور جمعرات کے روزے کا اہتمام فرماتے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2188]
اردو حاشہ:
ایک اور روایت میں سوموار اور جمعرات کے روزے کی وجہ نبیﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ان دو دنوں میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔ دیکھئے (جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 747)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2431
´شعبان کے روزے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2431]
فوائد ومسائل:
مختلف روایات کی روشنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان یا تو مبالغہ پر مبنی ہے، یا یہ مقصد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات روزے ابتدائے مہینہ میں رکھتے، کبھی درمیان مہینہ میں اور کبھی آخر مہینہ میں، یا یہ مقصد ہے کہ خال خال ہی کسی دن ناغہ کرتے تھے ورنہ عام ایام میں روزے ہی رکھتے تھے۔
ماہِ شعبان فضیلت والا مہینہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔
(سنن النسائي‘ الصيام‘ حديث:2359) اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کی بابت ایک حدیث سندا صحیح ہے اس میں آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس رات شرک کرنے اور بغض و کینہ رکھنے والے کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
(مجمع الزوائد‘ 8/65 وابن حبان‘ حديث:5665 والصحيحة‘ حديث:1144) روزے کی بابت آپ سے مروی ہے آپ شعبان کے مہینے کے کسی دن کو روزے کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے بلکہ اس ماہ میں اکثر روزے رکھا کرتے تھے، دوسری بات کہ پندرھویں رات کو اگر کوئی اس نیت سے عبادت کرتا ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، تو وہ ممکن حد تک ہر کسی کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے عبادت کر سکتا ہے، لیکن اس رات میں چراغاں کرنا یا موم بتیاں جلانا یا اگلے دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم.
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2431