سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
2. بَابُ : مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ
باب: ماہ رمضان کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1642
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصوم 1 (682)، (تحفة الأشراف: 12490)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 5 (1898، 1899)، بدأالخلق 11 (3677)، صحیح مسلم/الصوم 1 (1079)، سنن النسائی/الصیام 3 (2099)، موطا امام مالک/الصیام 22 (59)، مسند احمد (2/281، 282، 357، 378، 401)، سنن الدارمی/الصوم 53 (1816) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہی وجہ ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ جاتی ہے، اور وہ اس میں تلاوت قرآن، ذکر و عبادت اور توبہ و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنے لگتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (682)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1642 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1642
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ماہ رمضان نیکیوں کامہینہ ہے۔
اس مہینے میں اللہ کی طرف سے نیکیوں کے راستے میں حائل بڑی رکاوٹیں دور کردی جاتی ہیں۔
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
یابرایئوں سے اجتناب کرکے اللہ کی رحمت حاصل نہیں کرتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے،۔
(2)
شیطانوں اور سرکش جنوں کے قید ہوجانے کے باوجود ماہ رمضان میں انسانوں سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان گیارہ مہینوں میں گناہوں کا مسلسل ارتکاب کرنے کی وجہ سے ان کے عادی ہوجاتے ہیں۔
پھر رمضان میں نفس کی اصلاح کے لئے کوشش بھی نہیں کرتے۔
یعنی روزے نہیں رکھتے۔
کثرت سے تلاوت نہیں کرتے۔
تراویح نہیں پڑھتے۔
اس لئے ان کے نفس کی تربیت اور اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے وہ گناہوں سے اجتناب نہیں کرسکتے۔
(3)
جنت کے دروازے کھل جانے اور جہنم کے دروازے بند ہوجانے سے حقیقتاً ان دروازوں کا کھلنا اور بند ہونا بھی مراد ہے۔
اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمان معاشرے میں ماہ رمضان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
اس لئے نیکیوں کی طرف عام رجحان پیدا ہوتا ہے۔
اور مسلمان ہر قسم کی نیکی کرنے پرمستعد ہوجاتے ہیں۔
اور ہر گناہ سے بچنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔
گویا یہ نیکیاں جنت کے دروازے ہیں۔
اور گناہ جہنم کے دروازے
(4)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور گناہوں سے باز آ جانے کا اعلان بھی، اس لئے ہے کہ مسلمان نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔
(5)
ہر رات بعض لوگوں کی جہنم سے آزادی بھی ماہ رمضان کا خصوصی شرف ہے۔
گناہوں سے توبہ کرکے ہر شخص اس شرف کو حاصل کرسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1642
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2100
´ماہ رمضان کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2100]
اردو حاشہ:
(1) ”جنت کے دروازیـ“ یعنی آسمانی جنت کے حقیقی دروازے کھول دیے جاتے ہیں، بطور استقبال کے، یہ بھی ممکن ہے کہ مراد وہ کام ہوں جو جنت میں جانے کا سبب ہیں، یعنی ان کاموں کا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ واقعتا رمضان المبارک میں ہر شخص کے لیے نیکی کے کام بہت آسان ہو جاتے ہیں۔ پہلے معنیٰ حقیقت کے زیادہ قریب ہیں۔
(2) آگ کے دروازوں سے مراد بھی وہ دونوں معانی ہو سکتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔
(3) ”شیطان“ حقیقی شیطان یا گمراہی کے اسباب تقریباً ختم ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں عموماً ہر طرف نیکی کا دور دورہ ہوتا ہے اور برائی کرنا مشکل مگر یہ سب کچھ ایمان والوں کے لیے ہے۔ ایمان نہ ہو تو رمضان اور غیر رمضان برابر ہیں۔
(4) جنت اور جہنم کوئی خیالی چیزیں نہیں بلکہ ان کا وجود حقیقی ہے۔ ان کے دروازے بھی ہیں جو کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2100
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2102
´(اس حدیث) میں زہری پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2102]
اردو حاشہ:
”رحمت کے دروازے“ لفظ رحمت سے اس تاویل کی گنجائش نکلتی ہے کہ جنت کے دروازوں سے مراد نیکی کے کام ہیں، اگرچہ اس لفظ سے حقیقی دروازوں کی نفی بھی نہیں ہوتی نہ کرنے کی ضرورت ہی ہے۔ ممکن ہے دونوں معانی مراد ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2102
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2104
´(اس حدیث) میں زہری پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ ابن اسحاق (والی) حدیث غلط ہے، اسے ابن اسحاق نے زہری سے نہیں سنا ہے، اور صحیح (روایت) وہ ہے جس کا ذکر ہم (اوپر) کر چکے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2104]
اردو حاشہ:
ابن اسحاق کے عدم سماع پر آئندہ الفاظ دلالت کرتے ہیں جس میں ابن اسحاق نے صرف یہ کہا ہے کہ محمد بن مسلم زہری نے یہ روایت ذکر کی۔ گویا اپنے سماع کی صراحت نہیں کی۔ یاد رہے ابن اسحاق مدلس راوی ہے۔ ایسا راوی جب تک سماع کی صراحت نہ کرے اس کی روایت درست نہیں ہوتی۔ ابن اسحاق نے زہری کا استاد انس بن ابو انس بنایا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ زہری کے استاد نافع بن ابو انس ہیں نہ کہ انس بن ابو انس، اس لیے امام نسائی نے ابن اسحاق کی روایت کو خطا اور دوسروں کی روایت کو صحیح بتلایا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2104
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2108
´اس حدیث میں معمر پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2108]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہ روایت دیگر شواہد کی روشنی میں اصولی طور پر صحیح ہے، نیز دیگر محققین نے بھی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح الترغیب للألباني، رقم الحدیث: 999، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 2/ 59)
(2) ”آسمان کے دروازے“ ماہ رمضان کے استقبال کے لیے، یا اہل ایمان کے اعمال صالحہ کی وصولی کے لیے، یا اس سے اعمال صالحہ کی کثرت مراد ہے کہ سب دروازے کھولنے پڑتے ہیں کیونکہ کمزور سے کمزور ایمان والا شخص بھی اس میں کچھ نہ کچھ اعمال صالحہ کرتا ہے۔
(3) ”جہنم یا آگ کے دروازے“ رمضان کے استقبال کے لیے احتراماً، جیسے کسی معزز شخصیت کے آنے پر ناپسندیدہ چیزوں کو ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ یا مراد ہے کہ عذاب قبر موقوف ہو جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ مومنین کے لیے ہے، کفار کے لیے سب کچھ کھلا رہتا ہے۔
(4) ”سرکش جن“ یعنی بڑے بڑے شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شتونگڑے کھلے رہتے ہیں، تبھی کچھ نہ کچھ گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ ویسے سب گناہ شیاطین ہی کی وجہ سے نہیں ہوتے، انسان کا اپنا نفس بھی تو شیطان بن جاتا ہے، لہٰذا باوجود شیاطین کے جکڑے جانے کے گناہوں کا عادی نفس گناہ میں جاری رہتا ہے۔
(5) ”ہزار مہینے سے بہتر ہے۔“ یعنی اس رات میں عبادت عام دنوں کے ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے اور یہ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔ اور یہ رات ہمیشہ کے لیے ایک مقررہ رات نہیں بلکہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں بدل بدل کر آتی ہے تاکہ لوگوں میں عبادت کا ذوق بڑھے اور وہ متعدد راتوں میں قیام کریں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2108
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 682
´ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن ۱؎ جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا ۲؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 682]
اردو حاشہ: 1؎: ((مَرَدَةُ الْجِنِّ)) کا عطف ((الشًّيَاطِيْن)) پر ہے،
بعض اسے عطف تفسیری کہتے ہیں اور بعض عطف مغایرت یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اورمردۃ الجن قید کر دیئے جاتے ہیں تو پھر معاصی کا صدور کیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اور شیاطین کا وجود ضروری نہیں،
انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثر ہوتا رہتا ہے رمضان میں بھی اس کا اثر باقی رہتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈر قید کر دیئے جاتے لیکن رضا کار اور والنیٹئر کھُلے رہتے ہیں۔
2؎:
اسی ندا کا اثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و عبادات خیرات اور توبہ و استغفار کا زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 682
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1898
1898. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1898]
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی خود آنحضرت ﷺ نے لفظ رمضان استعمال فرمایا۔
حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1898
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1899
1899. حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے مکمل طور پر کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، نیز شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1899]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے شہر رمضان کا لفظ استعمال فرمایا اس سے باب کا مقصد ثابت ہوگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1899
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1899
1899. حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے مکمل طور پر کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، نیز شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1899]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری نے ایک حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ابن عدی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعا بیان کیا ہے کہ رمضان مت کہو کیونکہ رمضان، اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے۔
اس کی سند میں ابو معشر نامی راوی ضعیف ہے۔
ان احادیث میں لفظ رمضان مجرد استعمال ہوا ہے ان میں اس کے ساتھ شهر وغیرہ استعمال نہیں ہوا جبکہ شهر رمضان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں استعمال کیا ہے۔
ثابت ہوا کہ دونوں طرح اس مہینے کا نام لیا جا سکتا ہے۔
(2)
امام نسائی نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(الرخصة في أن يقال لشهر رمضان رمضان)
”شہر رمضان کو صرف رمضان کہنے کی رخصت کا بیان۔
“ پھر انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنے کا حج کے برابر ثواب ملتا ہے، (سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2112)
بہرحال جمہور اس کے جواز کے قائل ہیں۔
(3)
ماہ رمضان کو رمضان کہنے کی حسب ذیل دو وجوہات ہیں:
٭ رمضاء شدت گرمی کو کہتے ہیں۔
اس مہینے میں روزہ رکھنے سے گناہ جل جاتے ہیں۔
٭ رمضان میں روزوں کی ابتدا سخت گرمی کے دنوں میں ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 146/4) (4)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رمضان میں جب شیاطین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے تو روئے زمین پر اس ماہ مبارک میں نافرمانی کیوں ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاد آدم کو گمراہ کرنے والی کئی قوتیں متحرک ہیں صرف ایک قوت کو بے بس کر دیا جاتا ہے باقی قوتیں مسلسل اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1899
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3277
3277. حضرت ابو ہریرہ ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بالکل بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بھی پابند سلاسل (قید) کردیا جاتاہے۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3277]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں اہل ایمان کے لیے ایک فضیلت کا بیان ہے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں کہ مرتے ہی جنت میں پہنچ جائیں گے۔
اس کے لیے عقیدے کی درستی اور اعمال کا سنت کے مطابق ہونا بنیادی شرط ہے۔
اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ جو بھی اس مہینے میں مر جائے اس کا حساب کتاب نہیں ہوتا بلکہ وہ سیدھاجنت میں پہنچ جاتا ہے۔
اس خود ساختہ فارمولے کے مطابق ابو جہل ملعون اور اس کے بدبخت ساتھیوں کا حساب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ رمضان میں مرے تھے لیکن ان کا حساب تو مرتے ہی شروع ہو گیا تھا جب انھیں گھسیٹ کر میدان بدر کے ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا گیا تھا۔
2۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہ مقصود ہے کہ ماہ رمضان کے حوالے سے شیطان کے ایک وصف سے آگاہ کر دیا جائے کہ اسے پابند سلال کردیا جاتا ہے البتہ جن لوگوں کے اپنے نفس ہی شیطان بن چکے ہیں۔
وہ اس میں شامل نہیں ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3277
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن نسائی2108
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں... [سنن نسائي 2108]
رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا
سوال: حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید، سورۃ الانفال (48) سے ثابت ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر (رمضان) میں شیطان اپنے پیروکاروں (مشرکین مکہ) کے ساتھ بطور مددگار آیا تھا، پھر بھاگ گیا۔ حدیث اور قرآن میں کیا تطبیق ممکن ہے؟
الجواب:
شیاطین کی تین قسمیں ہیں:
1- بڑا شیطان یعنی ابلیس: جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا۔
2- مردۃ الشیاطین: انتہائی سرکش شیاطین (جو کہ دوسرے شیطانوں کے سردار ہیں)
3- عام شیاطین
٭ بڑے شیطان یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مہلت دے دی ہے جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔ [سورة الاعراف:14۔18]
لہٰذا ابلیس کو رمضان میں باندھا نہیں جاتا۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَتُغَلُّ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ»
اور رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھا جاتا ہے۔
[سنن نسائي 4/ 129، ح 2108، وسنده ضعيف، مسند احمد ج 2 ص 230، 385، 425]
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ مگر ابو قلابہ تابعی رحمہ اللہ کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ [الترغيب والترهيب ج 2 ص 98]
لیکن اس حدیث کے متعدد شواہد ہیں مثلاً:
«حديث عتبة بن فرقد وفيه:»
«وَيُصَفَّدُ فِيْهِ كُلُّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ»
اور اس (رمضان) میں ہر شیطان مرید (سرکش شیطان) کو باندھ دیا جاتا ہے۔
[سنن النسائي: 2110، و مسند احمد 4/ 311، 312، واسناده حسن]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مردۃ الشیاطین (سرکش شیطانوں) کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے۔
امام ابن خزیمہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج3ص 188، قبل ح 1883]
یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خاص عام پر اور مقید مطلق پر مقدم ہوتا ہے۔
عام شیاطین کے باندھے جانے کے بارے میں کوئی صریح دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ والحمدللہ
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 137 اور 138)
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 137