Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
51. بَابُ مَنْ أَقْسَمَ عَلَى أَخِيهِ لِيُفْطِرَ فِي التَّطَوُّعِ وَلَمْ يَرَ عَلَيْهِ قَضَاءً، إِذَا كَانَ أَوْفَقَ لَهُ:
باب: کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی۔
حدیث نمبر: 1968
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ: فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ لَهَا: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ، ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ، قَالَ: نَمْ، فَنَامَ ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ: نَمْ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، قَالَ سَلْمَانُ: قُمْ الْآنَ فَصَلَّيَا، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ"، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ سَلْمَانُ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے اور ان سے ان کے والد (وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو (ان کی عورت) ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں، اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہو گئے (اور روزہ توڑ دیا) رات ہوئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1968 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1968  
حدیث حاشیہ:
عبادت الٰہی کے متعلق کچھ غلط تصورات ادیان عالم میں پہلے ہی سے پائے جاتے رہے ہیں۔
ان ہی غلط تصورات کی اصلاح کے لیے پیغمبر اعظم ﷺ تشریف لائے۔
ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ بھی ایسے تصورات رکھتے تھے۔
جن میں سے ایک حضرت ابودردا ؓ بھی تھے جو یہ تصور رکھتے کہ نفس کشی بایں طور کرنا کہ جائز حاجات بھی ترک کرکے حتی کہ رات کو آرام ترک کرنا، دن میں ہمیشہ روزہ سے رہنا ہی عبادت ہے اور یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔
حضرت سلمان ؓ نے ان کے اس تصور کی عملاً اصلاح فرمائی اور بتلایا کہ ہر صاحب حق کاحق ادا کرنا یہ بھی عبادت الٰہی ہی میں داخل ہے، بیوی کے حقوق ادا کرنا، جس میں اس سے جماع کرنا بھی داخل ہے۔
اور رات میں آرام کی نیند سونا اور دن میں متواتر نفل روزوں کی جگہ کھانا پینا یہ سب امور داخل عبادت ہیں۔
ان ہر دو بزرگ صحابیوں کا جب یہ واقعہ آنحضرت ﷺ تک پہنچا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید فرمائی اور بتلایا کہ عبادت الٰہی کا حقیقی تصور یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بلکہ حقوق النفس بھی ادا کئے جائیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1968   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1968  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے امام بخاری ؒ نے نفلی روزوں کے مسائل و احکام بیان کرنے کا آغاز فرمایا ہے۔
ان کے متعلق پہلا مسئلہ یہ بیان کیا کہ نفلی روزہ رکھنے کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔
اگر اسے کسی ضرورت کے پیش نظر توڑ دیا جائے تو کیا اس کی قضا دینا لازم ہے یا نہیں؟ عنوان سے امام بخاری ؒ کا یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سبب کے پیش نظر اسے توڑا جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں۔
اگر بلاوجہ اسے قبل از وقت افطار کر دیا جائے تو اس کی قضا دی جائے۔
اگرچہ پیش کردہ روایت میں قسم دینے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن بیہقی میں ہے کہ حضرت سلمان ؓ نے فرمایا:
میں تجھے روزہ چھوڑ دینے کے متعلق قسم دیتا ہوں۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 276/4) (2)
پیش کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی روزہ کس معقول وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں اور نہ اس کی قضا دینا ہی ضروری ہے ہاں، اگر آدمی چاہے تو بعد میں اس کی جگہ اور روزہ رکھ لے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا۔
آپ ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف لائے۔
جب کھانا سامنے پیش کر دیا گیا تو ایک آدمی نے کہا:
میں روزے سے ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمہارے بھائی نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے اور بڑے تکلف سے کام لیا ہے۔
اپنا روزہ افطار کر دو اور اگر چاہو تو بعد میں اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لو۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 279/4)
ان روایات کا تقاضا ہے کہ نفلی روزہ کسی وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کی قضا دینا ضروری نہیں اور قضاء کے وجوب پر جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل حجت نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 270/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1968