Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
53. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
باب: میت پر رونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1591
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَرَّ بِنِسَاءِ عَبْدِ الْأَشْهَلِ يَبْكِينَ هَلْكَاهُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكِنَّ حَمْزَةَ لَا بَوَاكِيَ لَهُ"، فَجَاءَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ حَمْزَةَ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" وَيْحَهُنَّ مَا انْقَلَبْنَ بَعْدُ مُرُوهُنَّ، فَلْيَنْقَلِبْنَ وَلَا يَبْكِينَ عَلَى هَالِكٍ بَعْدَ الْيَوْمِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قبیلہ) عبدالاشہل کی عورتوں کے پاس سے گزرے، وہ غزوہ احد کے شہداء پر رو رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن حمزہ پر کوئی بھی رونے والا نہیں، یہ سن کر انصار کی عورتیں آئیں، اور حمزہ رضی اللہ عنہ پر رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، تو فرمایا: ان عورتوں کا برا ہو، ابھی تک یہ سب عورتیں واپس نہیں گئیں؟ ان سے کہو کہ لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی بھی مرنے والے پر نہ روئیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7491، ومصباح الزجاجة: 574)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/40، 84، 92) (حسن صحیح) (اسامہ بن زید ضعیف الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1591 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1591  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد میں شہید ہوگئے۔
ان کے گھرانے کی خواتین ابھی ہجرت کرکے مدینے نہیں آئیں تھیں۔
اس لئے نبی کریمﷺ نے اظہار ترحم کے لئے فرمایا حمزہ پر رونے والا کوئی نہیں اس کا مقصد رونے والیوں کے عمل کی تعریف کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی بے کسی کا اظہار تھا۔
کہ اس موقع پر ان کے اہل خانہ بھی موجود نہیں ہیں۔
جن کو فطری طور پر سب سے زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔

(2)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کے اشاروں پر فدا ہونے والے تھے۔
یہ ان کی محبت کا کمال تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی بات فرمائی جس سے انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ چاہتے ہیں۔
کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رویا جائے۔
تو ان کی خواتین فوراً تیار ہوکر آ گیئں۔
کیونکہ ان کے لئے نبی اکرمﷺ کا دلگیر ہونا اپنے غم وحزن سے زیادہ تکلیف دہ تھا اس لئے انھوں نے اس غم کی وجہ سے آواز سے رونا شروع کردیا۔

(3)
رسول اللہ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔
اس لئے ان خواتین کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا۔

(4)
میت کے گھر جمع ہوکر رونا پیٹنا اور نوحہ کرنا منع ہے۔
بلکہ نوحہ کے بغیر بھی میت والوں کے گھر جمع ہونا منع ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث نمبر: 1612)
جو شخص تعزیت کے لئے آئے تو وہ شخص تعزیت کرکے چلا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1591