سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
45. بَابُ : مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمَشْيِ عَلَى الْقُبُورِ وَالْجُلُوسِ عَلَيْهَا
باب: قبروں پر چلنے اور ان پر بیٹھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1567
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ أَمْشِيَ عَلَى جَمْرَةٍ، أَوْ سَيْفٍ، أَوْ أَخْصِفَ نَعْلِي بِرِجْلِي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمْشِيَ عَلَى قَبْرِ مُسْلِمٍ، وَمَا أُبَالِي أَوَسْطَ الْقُبُورِ قَضَيْتُ حَاجَتِي، أَوْ وَسْطَ السُّوقِ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں انگارے یا تلوار پہ چلوں، یا اپنا جوتا پاؤں میں سی لوں، یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں، اور میں کوئی فرق نہیں سمجھتا کہ میں قضائے حاجت کروں قبروں کے بیچ میں یا بازار کے بیچ میں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9964، ومصباح الزجاجة: 561) (صحیح) (الإرواء: 63)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے شرم کی وجہ سے بازار میں آدمی کسی طرح پاخانہ نہیں کر سکتا، پس ایسا ہی مردوں سے بھی شرم کرنی چاہئے، اور قبرستان میں پاخانہ نہیں کرنا چاہئے، اور جو کوئی قبروں کے درمیان پاخانہ کرے وہ بازار کے اندر بھی پیشاب پاخانہ کرنے سے شرم نہیں کرے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الرحمٰن بن محمد المحاربي مدلس وعنعن
و أخرجه ابن أبي شيبة (3/ 338۔339) بإسناد صحيح عن عقبة به موقوفًا وھو الصواب وله حكم الرفع
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1567 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1567
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں۔
اور یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ (339/338/3)
میں حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی ہے۔
لیکن حکماً مرفوع ہے۔
جب کہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الإرواء للألبانی، رقم: 63 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1567)
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2)
قبروں میں قضائے حاجت کرنا بہت بُری حرکت ہے۔
(3)
بعض علماء نے قبر پر بیٹھنے سے بھی یہی مُراد لیا ہے بعض نے قبر پر چڑھ کر بیٹھنا مُراد لیا ہے۔
جس طرح ہم کسی اونچی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔
کیونکہ اس سے میت کی اہانت ہوتی ہے۔
(4)
جس طرح آگ پر یا تلوار پر چلنا کوئی پسند نہیں کرتا۔
اسی طرح مسلمان کی قبر پر پاؤں رکھنے سے انتہائی پرہیز کرنا چاہیے افسوس کی بات ہے کہ آجکل مسلمان اس چیز کی بالکل پروا نہیں کرتےاور قبروں پر سے راستہ بنا لیتے ہیں۔
(5)
قبروں پر بیٹھنے کا ایک مطلب مجاور بن کر بیٹھنا بھی بیان کیا گیا ہے۔
یہ کام بھی دوسرے دلائل کی روشنی میں ممنوع ہے۔
(6)
حدیث کے آخری جملے کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔
”مجھے پرواہ نہیں کہ قبروں کے درمیان قضا ئےحاجت کروں یا بازار میں“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے مجبور کیا جائے کہ میں ان دو بُرے کاموں سے ایک ضرور کام کروں۔
تو میری نظر میں یہ دونوں کام برابر ہوں گے۔
یا یوں کہا جاسکتا ہے۔
کہ اگر کوئی قبرستان میں قضائے حاجت کرنے سے شرم نہیں کرتا تو اسے سر بازار قضائے حاجت کرنے سے بھی شرم نہیں کرنی چاہیے۔
اگر وہ بازار میں سب کےسامنے ننگا ہوکر نہیں بیٹھ سکتا تو قبروں میں بھی اسے اتنی ہی شرم کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1567