Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
48. بَابُ الْوِصَالِ، وَمَنْ قَالَ لَيْسَ فِي اللَّيْلِ صِيَامٌ:
باب: پے در پے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا۔
حدیث نمبر: 1964
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدٌ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ رَحْمَةً لَهُمْ"، فَقَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنِّي يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: لَمْ يَذْكُرْ عُثْمَانُ رَحْمَةً لَهُمْ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پے در پے روزہ سے منع کیا تھا۔ امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔ عثمان نے (اپنی روایت میں) امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1964 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1964  
حدیث حاشیہ:
اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو طے کا روزہ رکھنا حرام نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت پر شفقت کے خیال سے اس سے منع فرمایا جیسے قیام اللیل میں آپ چوتھی رات کو برآمد نہ ہوئے اس ڈر سے کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور ابن ابی شبیہ نے بإسناد صحیح عبداللہ بن زبیر ؓ سے نکالا کہ وہ پندرہ پندرہ دن تک طے کے روزے رکھتے۔
اور خود آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ طے کے روزے رکھے۔
اگر حرام ہوتے تو آپ ﷺ اپنے اصحاب ؓ کو کبھی نہ رکھنے دیتے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1964   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1964  
حدیث حاشیہ:
(1)
وصال کے روزے رکھنے کے متعلق جمہور محدثین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ متواتر روزے رکھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ نے فرمایا:
میں اس سلسلے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔
(2)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعیان امت کے لیے وصال حرام ہے، البتہ صبح تک وصال کی رخصت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن خود پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ متواتر روزے رکھنے سے منع کرتے تھے اور خود رکھا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1280) (3)
رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ بہت تہذیب یافتہ اور مؤدب تھے۔
ان کا یہ کہنا کہ آپ وصال کا روزہ رکھتے ہیں بطور اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس خصوصیت کا سبب معلوم کرنا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی روحانی طاقت عطا فرمائی ہے کہ مجھے بھوک یا پیاس محسوس نہیں ہوتی۔
ابن ابی حاتم نے بشیر بن خصاصیہ کی بیوی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا:
میں نے دو دن اور دو رات کا مسلسل روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تو میرے خاوند نے اس سے منع کر دیا اور یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسے عیسائیوں کا عمل قرار دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
تم اس طرح روزہ رکھو جس طرح تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
رات آنے تک روزہ رکھو، رات ہونے پر فورا افطار کر لو۔
(مسندأحمد، وتفسیرابن أبي حاتم: 347/6) (4)
امام بخاری ؒ نے آخر میں فرمایا:
میرے شیخ عثمان بن ابی شیبہ نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت پر شفقت کرتے ہوئے وصال کے روزوں سے منع کیا ہے جبکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنے شیخ سے سنے تھے لیکن کبھی انہیں بیان کرتے اور کبھی ان کے بغیر ہی حدیث ذکر کر دیتے۔
(فتح الباري: 260/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1964   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2572  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لوگوں پر رحمت و شفقت کی خاطر انہیں وصال سے روکا تو انھوں نے کہا، آپﷺ بھی تو وصال کرتے ہیں! آپﷺ نے فرمایا: میں تمھاری ہیئت و کیفیت میں نہیں ہوں کیونکہ مجھے تو میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2572]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

آپﷺ چونکہ امت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مشقت و کلفت برداشت کر کے بھی آپﷺ کا رویہ اور طرز عمل جہاں تک ممکن ہوتا تھا اختیار کرنے کی کوشش فرماتے۔
اسی کے مطابق آپﷺ کے وصال کرنے کو معلوم کر کے وصال کرنے لگے لیکن چونکہ وصال میں بغیر افطار اور سحری کے مسلسل روزے رکھے جاتے ہیں دنوں کی طرح راتیں بھی بلا کھائے پئے گزرتی ہیں اس لیے ایسے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث ہونے کی بنا پر ضعف اور کمزوری بھی پیدا کرتے ہیں اس لیے یہ خطرہ ہی نہیں عام لوگوں کے اعتبار سے واقعہ ہے کہ انسان اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ دوسرے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے امت کو اس طرح روزے رکھنے سے منع فرما دیا اور آپﷺ کا معاملہ اس کے برعکس ہے جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔

(أيُّكُمْ مِثْلِي)
تم میں سے کون میری مثل ہے:
بعض حضرات نے اس حدیث سے کشید کیا ہے کہ کسی وجودی معنی میں کائنات کا کوئی شخص آپﷺ کی مثل نہیں ہےاس لیے:
(إِنَّمَآ أَنَاْ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ)
جو وجودی معنی ہے کہ میں بھی تمھاری طرح انسان ہوں کا معنی کیا ہے کہ میں بھی تمھاری طرح معبود نہیں ہوں حالانکہ اس حدیث کا معنی بالکل واضح ہے کہ:
(إنَّكم لستُمْ في ذلك مثلي)
کہ تم اس وصال کے معاملہ میں میری مثل نہیں۔
کیونکہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور تمھارے ساتھ اس کا یہ معاملہ نہیں ہے وگرنہ آپﷺ بھی عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔
سوتے جاگتے تھے۔
بیوی بچوں والے تھے۔
بول کا شکار ہو جاتے تھے پھر اس سے امتناع نظیر کا مسئلہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپﷺ کی نظیر پیدا کرنا محال بالذات ہے حالانکہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ جیسے اشخاص پیدا کر سکتا ہے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت و کمال کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ جیسا صاحب کمال و جمال پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن نہیں ہے۔
اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اگر وہ پیدا کر سکتا ہے تو وہ اس کو آپﷺ کی طرح خاتم الانبیاء بھی بناتا تو اس طرح خاتم الانبیاء ایک ہوتا،
دوسرا خاتم الانبیاء نہ ہوتا،
لہٰذا دونوں کا برابر ہونا ممتنع اور محال بالذات ہے لہٰذا آپﷺ کی نظیر ممتنع بالذات ہے آپﷺ جیسا پیدا کرنے کا لازمی نتیجہ خاتم الانبیاء بنانا نہیں ہے مقصد صرف انسانی کمالات و خوبیاں پیدا کرنا ہے وگرنہ تو کوئی ایک انسان دوسرے کی نظیر و مثیل نہیں بن سکتا ہر ایک میں کوئی نہ کوئی وجہ امتیاز موجود ہے تو پھر آپﷺ کی نظیر کے امتناع کی بحث کی کیا ضرورت رہی۔

(إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُني رَبِّي ويَسْقِيني)
میں رات اس طرح گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے:
(إنّي أَظَلّ- عِنْدَ رَبّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي)
میرا دن اس طرح گزرتا ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اب پہلے فرمان کی روسے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے اگر آپﷺ کھاتے پیتے تھے تو پھر آپﷺ کا وصال کیسا ہوا،
دوسرے فرمان پر یہ اشکال ہے کہ دن کو تو کھانا پینا جائز نہیں ہے نیز دن کو کھانے پینے والا تو روزہ دار ہی نہیں ہو سکتا۔
تو آپﷺ روزے دار اور وصال کرنے والے کیسے بن گئے اس کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے۔
آپﷺ کا کھانا پینا وصال یا روزے کے منافی تب ہوتا اگر آپﷺ کا طعام معتاد یعنی دنیوی ہوتا آپﷺ معتاد طریقہ کے مطابق ظاہری طور پر منہ سے کھاتے یا خود کھاتے نہ یہ کھانا معتاد تھا اور نہ طریق اکل معتاد تھا اور نہ آپﷺ نے خود کھایا۔
(ب)
جمہور کے نزدیک کھانا پینا مجازی معنی میں ہے کہ کھائے پیے بغیر بھوک و پپاس کے باوجود آپﷺ کے قلب و جگر اور روح کو وہ طاقت اور توانائی میسر رہتی تھی جس سے آپﷺ کی قوت کار اور صحت متاثر نہیں ہوتی تھی یا بقول بعض صوم وصال کی صورت میں آپﷺ کو کھائے پیے بغیر سیری اور سیرابی حاصل ہو جاتی تھی اور آپﷺ کی بھوک پیاس مٹ جاتی تھی اس طرح جمہورکے نزدیک قوت و توانی بھوک پیاس کی موجودگی میں حاصل ہوتی تھی اور دوسرے قول کے مطابق قوت و توانائی بھوک و پیاس ختم کر کے سیری سیرابی سے حاصل ہوتی تھی لیکن یہ وصال کے ساتھ خاص ہے۔
عام حالات میں آپﷺ کو بھوک و پیاس محسوس ہوتی تھی اور آپﷺ پیٹ پر بھوک کی بنا پر پتھر بھی باندھتے تھے۔
اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ یہ غیر مادی اور روحانی غذا تھی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی طرف دھیان و توجہ کی بنا پر کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
گویا روزے کی حالت میں آپﷺ پر اس قدر انواروتجلیات الٰہیہ کا فیضان ہوتا جس سے لذت مناجات اور آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہوتی جوغذائے قلبی بنتی جس کی بنا پر مادی غذا کی ضرورت نہ رہتی ایک شاعرکہتا ہے۔
لها أحاديث من ذكــــراك تشغلهاعن الشــراب وتلهيها عن الزاد اسے تیرے ذکر و یاد کی باتیں مشروب اور زاد سے مشغول اور غافل کر دیتی ہیں۔
دوسرا کہتا ہے۔
وذكرك للمشتاق خير شراب وكل شراب دونه سراب اس کے لیے تیری یاد ہی بہترین مشروب ہے جس کے مقابلہ ہر قسم کا مشروب محض سراب اور بے حقیقت ہے۔

ممانعت وصال کی روایات کا اصل مقصد اور منشاء یہ ہے کہ بندے مشقت اور تکلیف میں مبتلا نہ ہوں اس لیے آپﷺ نے سحر تک وصال کی اجازت دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دو دن وصال بھی کرایا دو ٹوک انداز میں منع نہیں فرمایا بلکہ اپنے وصال کی علت وسبب کا اظہار فرمایا:
اس لیے اگر کوئی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا باہمت اور حوصلہ مند انسان انفرادی اور شخصی طور پر ایسا موجود ہو جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وصال بھی کر سکتا ہو تو وہ اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لے۔
اس لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
بعض شوافع اور موالک اور احناف کے نزدیک وصال حرام نہیں ہے مکروہ تنزیہی ہے اگرچہ اکثر آئمہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک حرام ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2572